عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا تعلق صرف اور صرف سیاست سے نہیں ہے۔ کھیلوں کا میدان بھی ان تعلقات کا ایک مرحلہ ہے جس میں قابض اسرائیلی ریاست اپنے ناپاک وجود کو جواز بخشنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جہاں بعض امریکا اور صہیونیت نواز عرب حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے مگر عوامی سطح پر اور کھیلوں کے میدانوں میں کارنامے انجام دینے والے کھلاڑیوں اور ہیروز نے فلسطینی نصب العین کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ دوستی کی تمام سازشوں کو مسترد کر دیا ہے۔
پچھلے چند ماہ کے دوران امریکی کوششوں، دبائو اور بلیک میلنگ کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان کے اسرائیل کو تسلیم کیا۔
اسپورٹس چیمپینشپ اب بھی مختلف قومیتوں کے آزاد ایتھلیٹوں کے عہدوں کی گواہی دیتی ہے جنہوں نے اسرائیلی کھلاڑیوں کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا۔ فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والی کھیل کی ٹیموں اور ان میں کھیلنے والے ہیروز نے اسرائیل کو ایک دشمن اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا قصور وار قرار دیا ہے۔
حال ہی میں مکابی حیفا کلب نے امارات کے العین کلب کے ساتھ معاہدہ کیا مگر اس کلب کے کئی ارکان نے اسرائیلی کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔
امارات اور اسرائیل کے درمیان حال ہی میں 18 سمجھوتوں اور باہمی تعاون کی یاداشتوں پر دستخط ہوئے جن میں کھیل کے میدان میں دو طرفہ تعاون بھی شامل ہے۔
کھلاڑیوں اور عوامی حلقوں کی مخالفت
اسرائیل عرب ممالک میں کھیلوں کے تمام فورم میں شرکت کا خواہاں ہے۔ وہ عرب اور اسلامی ممالک کے کھیل کی ٹیموں میں اپنی موجودگی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن متعدد اقوام کے درجنوں کھلاڑیوں نےفلسطینی کاز کے انصاف کے اعتقاد اور اسرائیلی کھلاڑیوں کو قابض ریاست کا نمائندہ قرار دے کر ان کے ساتھ کھیلنے سے انکار کر دیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور سماجی علوم کے پروفیسر ڈاکٹر درداح الشاعر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1936ء سے صہیونی تحریک کھیلوں کے میدان میں عرب اور مسلمان اقوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے سرگرم ہے اور حوالے سے مذاکرات کی میز پر بات چیت بھی ہوتی رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ عرب اور مسلمان ممالک میں عوامی سطح پر اسرائیل کو آج بھی ایک دشمن اور غیرقانونی ریاست ہی کا درجہ حاصل ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اسرائیل کو ‘شر کی طاقت اور شیطانی ریاست’ قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کو جرم قرار دیتی ہے۔ ان میں کھیلوں اور نوجوانوں کے نمائندہ ادارے ، ٹیمیں اور کلب بھی اس موقف کے حامی ہیں۔
رواں سال جب اسرائیل کی ٹینس کی ٹیمیں تونس میں داخلے کی کوشش کرنے لگیں تو عوامی سطح پر ان کی شدید مذمت کی گئی۔ اسرائیلی ٹینس ٹیم نے تونس میں اپنی حریف ٹیم کے ساتھ ایک مقابلے میں حصہ لیا تو تونسی عوامی اور سیاسی حلقوں اور ری پبلیکن پارٹی کے سیکرٹری جنرل عصام الشابی نےصدر مملکت سے اسرائیلی ٹیموں کی ملک میں داخلے کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اسی طرح کچھ عرصہ قبل جب اسرائیل کی زیرنگرانی سعودی کھیل کی ٹیموں کے غرب اردن میں ہونے والے مقابلوں میں شرکت کی خبریںسامنے آئیں تو عرب اور مسلمان ممالک کی سطح پر اس کے خلاف سخت تنقید کی گئی تھی۔
اسرائیل سپورٹس بائیکاٹ کا جائزہ
سنہ 2014ء کو فلسطینی فٹ بال فیڈریشن کے چیئرمین میجر جنرل جبریل الرجوب نے بین الاقوامی فٹ بال فیڈریشن ‘فیفا’ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی ٹیم کو نسل پرستانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے الزام میں بلیک لسٹ کرنے کرے۔
سنہ 1990ء میں مصر میں مصری فٹ بال کے ایک کھلاڑی نادر السید نے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی ٹیموں کے ساتھ مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کیا تو اسے دو سال کے بعد ٹیم سے الگ کردیا گیا۔ بعد ازاں اسے ٹیم سے ہی نکال دیا گیا۔
سنہ 2019ء میں فلسطینی کھلاڑی سلطان ابو الحاج نے رام اللہ میں صہیونی ٹیم کے خلاف مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔
سنہ 2019ء میں ملائیشیا نے اسرائیلی کھیلوں کی ٹیموں کو اپنے ہاں ہونے والی تیراکی کے اولمپک مقابلوں میں شرکت کی اجازت دینے سےانکار کردیا۔ سنہ 2019ء کو اسرائیلی بائیکاٹ تحریک کی کوششوں سے جاپان نے بھی ہونڈا کی ایک کار ریس مقابلے میں اسرائیلیوں کو اجازت دینے سے انکار کر دیا۔
سنہ 2018ء کولبنان میں تائی باکسنگ کے ایک مقابلے کے دوران لبنانی باسکر یوسف عبود نے اسرائیلی ٹیم کے خلاف مقابلے میں حصہ لینے سے انکار کیا۔
سنہ 2018ء کو اٹلی میں بین الاقوامی پیزا مقابلے میں کویت ٹھیکیدار فہد البسکتی نے اسرائیلیوں کے ساتھ کھیلنے سےانکار کردیا جس پر صہیونی ٹیموں کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسلامی اور عرب ٹیم نے 2018ء کو اسپین میں ہونے والے ایک مقابلے کے لیے 57 لاکھ ڈالر کا ایک ٹھیکہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔