شنبه 16/نوامبر/2024

صہیونی ریاست کا القدس کو یہودیانے کا لا متناہی ‘بائولا پن’

منگل 27-اکتوبر-2020

قابض اسرائیلی ریاست نے سنہ 1967ء کی جنگ میں بیت المقدس پر اپنا غاصبانہ فوجی تسلط قائم کیا۔ وہ دن اور آج کا دن القدس کو یہودیانے کے لیے صہیونی ریاست نے کوئی لمحہ ضائع نہیں کیا اور دن رات القدس کو یہودیانے، اسے ہراعتبار سے یہودیوں کا جدی پشتی اورمورثی شہر ثابت کرنے اور اس کے ایک ایک جزو پر قبضہ کرنے کے لیے تمام وسائل اور پوری ریاستی مشینری استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو دیس نکالا دینے کے لیے پولیس، فوج اور طاقت کے استعمال کے ساتھ ہر حربہ استعمال کیا۔ فلسطینیوں‌کو القد سے بے دخل کرنے کے لیے یہودی آباد کاروں کے لشکر کو مسلط کیا گیا اور القدس کی اسلامی اور عرب شناخت مٹانے کے لیے ہرحربہ استعمال کیا گیا۔

صہیونی ریاست نے ویسے تو القدس کو یہودیانے کے لیے کئی نام نہاد ادارے اور تنظیمیں قائم کررکھی ہیں۔ ان میں بعض سرکاری ہیں اور بعض کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ انہی میں القدس کو یہودیانے کے لیے قائم کردی پلاننگ وکنسٹرکشن کمیٹی بھی شامل ہے۔ یہ کمیٹی اسرائیلی بلدیہ کے ماتحت کام کرتی ہے۔ حال ہی میں اس کمیٹی کی طرف سے القدس میں یہودی آباد کاروں کے لیے 56 مکانات کی تعمیر کا منصوبہ منظور کیا گیا۔ اس منصوبے کی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ یہ فلیٹس 5 منزلہ چھ پلازوں میں تعمیر کیے جائیں گے اور یہ سب شمالی بیت المقدس کے بیت حنینا میں الاشقریہ کالونی کالونی میں تعمیر کیے جائیں گے۔

اسرائیلی ریاست کی مرکزی پلاننگ کمیٹی کے چیئرمین عمیر شکید کے دستخطوں سے جاری ہونے والے اس منصوبے کے لیے شاہراہ 21 سےمتصل رمات شلومو اور بسغات زئیوف کے علاوہ بائی پاس روڈ اور مودیعین ک یہودی کالونی کے درمیان میں‌جگہ مختص کی گئی ہے۔

اس منصوبے میں‌ مشرق سے مغرب کی سمیت میں نئے پارک کےساتھ بیت حنینا تک ایک سڑک کے لیے بھی فلسطینی اراضی غصب کی گئی ہے۔

اسرائیل کے اس توسیع پسندانہ منصوبے کے لیے القدس کی 26 دونم یعنی 26 ہزار مربع میٹر کی جگہ مختص کی گئی ہے۔سب سے زیادہ اراضی شاہراہ نمبر 6 سے غصب کی گئی ہے۔ اس کےعلاوہ 3 دونم نشیبی بائی پاس روڈ نمبر چھ اور گرین زون سے لی گئی ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور  عرب اسٹڈیز آرگنائزیشن کے شعبہ مخطوطات کے ڈائریکٹر خلیل تفکجی نے اس منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ القدس کو یہودیانے کے ذریعے اسرائیل تین پیغامات دے رہا ہے۔

پہلا پیغام فلسطینی اتھارٹی کے لیے ہے۔ وہ یہ کہ القدس کسی قسم کے مذاکرات کے دائرے میں شامل نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل 1994ء سے اب تک القدس میں یہودیوں کے لیے 58 ہزار مکانات تعمیر کرچکا ہے۔

دوسرا پیغام یہودی آبا دکاروں کے لیے ہے کہ القدس میں امریکا کی آشیرباد سے یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کا عمل جاری رہا ہے۔ تیسرا پیغام عرب دنیا اور عالم اسلام کے لیے کہ القدس کو کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں موضوع بحث نہیں کیا جائے گا۔

مختصر لنک:

کاپی