سوڈان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور دشمن صہیونی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کا اعلان نہ صرف فلسطینی اور سوڈانی اقوام بلکہ پوری عرب اور مسلمہ امہ اور زندہ ضمیر انسانوں کے لیے ایک گہرے صدمے کا باعث بنا ہے۔ سوڈان کی خود مختار عسکری کونسل اور اس کی وفادار عبوری حکومت کے اعلان پر سوڈانی عوام میں شدید غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ سوڈان جیسے ملک کی طرف سے اسرائیل کو جس عجلت میں تسلیم کیا گیا ہے اس نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس نے افریقی عوام کو بھی ایک بڑی شرمندگی سے دوچار کیا ہے۔
اسرائیل کے مفادات
حال ہی میں اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے ایک رپورٹ نشر کی گئی جس میں سوڈان کے ساتھ تعلقات کے قیام کی صورت میں صہیونی ریاست کو حاصل ہونے والے مفادات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے سوڈان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام سے قرن افریقہ میں اسرائیل کو غیر مسبوق سیکیورٹی، فوجی سیاحت اور پناہ گزینوںکے حوالے سے فواید حاصل ہوں گے۔
رپورٹ میں سوڈان کے ساتھ تعلقات میں سب سے پہلے فائدے کے طور پر’سیکیورٹی مفادات’ کا ذکر کیا گیا ہے۔ سوڈان بحیرہ روم کے کنارے پر واقع ہونے والے ملک کی حیثیت سے اپنی خاص تزویراتی اہمیت رکھتا ہے۔ اس سمندر سے شمال سے جنوب کی جانب انسانی اسمگلنگ، اشیا کی اسمگلنگ اور اسلحہ کی اسمگلنگ اور تجارت کی جاتی ہے۔
سوڈان کے ساتھ تعلقات کے قیام سے اسرائیل بحیرہ احمر میں صہیونی ریاست مخالف قوتوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی پوزیشن میں آجائے گا اور خطے کے ممالک کے ساتھ ملک کر اپنے حریف گروپوں اور تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کر سکے گا۔ اس کے علاوہ اسرائیل کو اس خطے میں نیوی گیشن کی غیرمسبوق سہولت میسر ہوگی۔
اس طرح اسرائیل سوڈان سے مصر اوروہاں سے غزہ کی پٹی کو اسلحہ کی اسمگلنگ کی روک تھام کرسکے گا۔ سوڈان کی سرزمین کو اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے سے روکے گا اور ایران اور ترکی جیسے ممالک کی سرگرمیوں پر نظر رکھے گا۔
اسرائیل کو ایک فائدہ یہ پہنچے گا کہ وہ خطے کے ممالک تک اپنے اسلحہ کو براہ راست پہنچائے گا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوںکی وجہ سے براہ راست تنقید سے بچ جائے گا۔
سوڈان کے ساتھ تعاون کی صورت میں صہیونی ریاست میں غیرقانونی تارکین وطن کی آمد اور دراندازی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ اس وقت سوڈان کے راستے بڑی تعداد میں تارکین وطن اسرائیل آ رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ دونوں ملکوں کےدرمیان تعلقات کی بحالی کے ساتھ ہی اسرائیل غیر قانونی تارکین وطن کی نہ صرف روک تھام کرے گا بلکہ اسرائیل میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کو بھی واپس کرے گا۔
اسرائیل کو سوڈان کے ساتھ تعلقات کے قیام سے تیسرا فائدہ سیاحت کی شکل میں حاصل ہوگا۔ اسرائیلی ٹورزم کمپنیاں افریقی ملکوں میں سیاحت کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح اسرائیل میں سیاحت کے فروغ کے لیے افریقی سیاحوں کی آمد کی راہ ہموار ہوگی۔ اسرائیل کو سوڈان کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بعد ایتھوپیا، جنوبی افریقا اور لاطینی امریکا تک فضائی سفر بھی کم ہوجائے گا۔
حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے کہا تھا کہ وہ عن قریب سوڈان کے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد سے ملنے والے ہیں۔ اس وفد کے ساتھ وہ تجارت، سیاحت، زراعت اور دیگر شعبوں میں تعاون کے دروازے کھولنے پر بات کریں گے۔
عبرانی اخبار ‘معاریو’ کے مشرقی امور کے تجزیہ نگار جیکی کھوبی نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سوڈان کی بنیادوں میں اسرائیل سے دشمنی ہے مگر تل ابیب اور خرطوم کے ساتھ تعلقات کے قیام کے بعد دشمنی رفتہ رفتہ دوستی میں بدلے گی۔ ان کا ہے کہ سوڈان کے ساتھ تعلقات کے قیام کے نتیجے میں اسرائیل کو بحیرہ روم کے اطراف میں آباد ممالک تک رسائی اوربحیرہ روم کے پانیوں میں قدم جمانے کا موقع ملے گا۔