اسرائیل میں تعینات انتہا پسندانہ رحجانات رکھنے والے امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ مین نے کہا ہے کہ صدر ڈونلد ٹرمپ کی انتظامیہ نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کے حل کے لیے ‘سنچری ڈیل’ کا پروگرام پیش کیا تھا مگر اس پر عمل درآمد کے ٹائم فریم کے بجائے ہم نے عرب ممالک کی اسرائیل سے دوستی کے مشن کوآگے بڑھایا اور اس پرعمل درآمد کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے اپنے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کی قیمت پر عرب ممالک کو اسرائیل کے قریب کیا اور سنچری ڈیل پرعمل درآمد کو فی الحال موخر کردیا ہے۔
اسرائیلی اخبار’یسرائیل ھیوم’ کی طرف سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب میں امریکی سفیر نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ سنچری ڈیل پرعمل درآمد سے قبل عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان براہ راست اور اعلانیہ تعلقات کا قیام ضروری ہے۔ اس کے بعد ہی امریکا سنچری ڈیل منصوبے پرعمل درآمد کے لیے ٹائم فریم دے سکتا ہے۔ اس کے بعد اسرائیل کو غرب اردن کی 30 فی صد اراضی پراپنے قوانین نافذ کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کی طرف پیش رفت کی جاسکتی ہے۔
ڈیوڈ فریڈ مین کا کہنا تھا کہ کرونا کی وبا اسرائیل اور امریکا دونوںکے لیے خطرناک ہے۔ یہ وبا امریکی امن منصوبے کے اعلان کے ایک ماہ کے بعد پھیلی جس کے نتیجے میں سفارت کاری کا عمل بھی متاثر ہوا ہے۔
غرب اردن کی اراضی کے اسرائیل سے الحاق کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈیوڈ فریڈ مین کا کہنا تھا کہ ہم نے سنچری ڈیل منصوبے کوآگے بڑھانے کے لیے اسرائیلی سیاسی قوتوں کے درمیان بھی اتفاق رائے پیدا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔
انہوںنے کہا کہ ہم نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کے لیے موجودہ موقع غنیمت سمجھا اور اس کے بعد ہم نے دوسرے ممالک کو بھی اس پرقائل کیا ہے۔
فریڈمین نے کہا کہ اس وقت شیلو، غوش عتصیون اور عیلی سمیت تمام بڑی یہودی کالونیوں پر اسرائیل کا پرچم لہرا رہا ہے۔
فلسطین میں یہودی آباد کاری کی روک تھام یا الحاق کے بارے میں بات کرتے ہوئےفریڈ مین نے کہا کہ ہم غرب اردن میں قائم کسی ایک یہودی بستی کو خالی کرنے کے بھی حامی نہیں ہیں۔ ہم اسرائیل سے یہ نہیں کہیں گے کہ وہ یہودی بستیوں کو خالی کرے البتہ صہیونی ریاست کو یہودی کالونیوں پرعمل داری کے قیام میں مدد فراہم کریں گے۔