اردن کی ایک عدالت میں ایک فلسطینی شہری نے امریکا کے شہرت یافتہ سرچ انجن گوگل کے خلاف فلسطینی قوم کی توہین کے الزام میں ہرجانے کا ایک دعویٰ دائر کیا ہے۔
یہ مقدمہ فلسطینی رہ نما ایمن الحسینی کی مدعیت میں دائر کیا گیا ہے اور اس کیس کی پیروی اردن کے ایک سینیر قانون دان اور وکیل ایڈووکیٹ محمد طراونہ کررہے ہیں۔
ایمن الحسینی جو اس کیس کے مدعی ہیں ارض فلسطین میں قابض صہیونی ریاست کے قیام کے وقت صرف 11 سال کے تھے۔ انہوں نے گوگل کے خلاف فلسطینی قوم اور عرب اقوام کی توہین کا دعویٰ دائرکرکے چھینے گئے فلسطینی قوم کے حقوق کے حصول کی معمولی کوشش ہی سہی مگر ایک اہم پیش رفت کی ہے۔
ایمن الحسینی کی طرف سے دائر کردہ درخواست میں گوگل کے چند ماہ قبل اس اقدام کو بنیاد بنایا گیا ہے جس میں امریکی کمپنی نے صہیونی اور یہودی لابی کے زیراثر اپنے نقشے سے فلسطین کا نام ہٹا کر فلسطینی شہروں کے عربی نام عبرانی میں تبدیل کردیے تھے۔
ایمن الحسینی کا کہناہے کہ وہ ارض فلسطین کے مالک شہری ہیں اوراپنے چھینے گئے وطن کے حصول کے لیے مسلح جہاد سمیت تمام میدانوں میں جنگ لڑنے کا حق ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الحسینی کا کہنا تھا کہ وطن کے حصول کے لیے مسلح مزاحمت ہی واحد ہتھیار نہیں بلکہ اس کے علاوہ کئی دوسرے ذرائع بھی موجود ہیں۔ مسلح جدو جہد کے ساتھ ساتھ ہمیں وہ تمام دیگر ذرائع استعمال کرنا چاہئیں۔
الحسینی کا کہنا تھا کہ 72 سال کے دوران اسرائیلی ریاست کے جرائم کے خلاف کئی مقدمات اور درخواستیں دائر کی گئیں مگر یہ اپنی نوعیت کی پہلی درخواست ہے۔ یہ درخواست اس کی حمایت پر امریکی کمپنی گوگل کے خلاف دائر کی گئی ہے جس نے اپنے ریکارڈ سے فلسطین کا نقشہ ہٹا کر اسے اسرائیل کے نقشے میں تبدیل کیا اور فلسطینی شہروں کے عربی ناموں کو عبرانی ناموں کے ساتھ ظاہر کرکے جعل سازی کی ہے۔ ہم گوگل کے اس اقدام کو بھی ایک سنگین جرم تصور کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ جولائی میں ‘گوگل’ نے اپنے بین الاقوامی نقشےسے فلسطین کا نام ہٹا کر اس کی جگہ صہیونی ریاست کانام شامل کیا جس پر فلسطین، عرب ممالک اور عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا تھا۔
گوگل کے اس اقدام پر مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر، فیس اور دیگر پلیٹ فارمز پر نصرت فلسطین اور گوگل کے اقدام کی مذمت میں کئی مہمات چلائی گئیں۔
الحسینی سے اردن کی عدالت میں درخواست دائرکیے جانے کے بارے میں سوال کے جواب میںکہا کہ انہیں یہ درخواست دائر کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی اور نہ ہی کسی نے درخواست واپس لینے کے لیے دبائو ڈالا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں الحسینی نے کہا کہ یہ درخواست صرف اور صرف فلسطینی قوم کے مفاد میں دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست کے ساتھ قیام اسرائیل سے قبل ارض فلسطین پر فلسطینی مملکت کے وجود کے تاریخی اور مستند دستاویزی ثبوت بھی شامل کیے ہیں۔ درخواست میں یہ بتایا گیا ہے کہ خلافت عثمانیہ اور برطانیہ کے استبداد کے دور میں بھی فلسطین تاریخی طور پر موجود تھا مگریہاں پر نام نہاد صہیونی ریاست کا کوئی وجود نہیں۔
اس کیس کی پیروی کرنے والے قانون دان محمد طراونہ کا کہنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گوگل نے فلسطینی نقشے میں جعل سازی اور ہیرپھیر کرکے نہ صرف فلسطینی قوم بلکہ عرب اقوام کی عزت اور وقار کو بھی ٹھیس پہنچایا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ گوگل نے درخواست گذار اور پوری فلسطینی قوم کو نفسیاتی اور معنوی طور پر نقصان پہنچایا ہے۔