اٹھارہ اکتوبر 2011ء کو مصر کی ثالثی سے اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا ایک تاریخی معاہدہ طے پایا۔ یہ معاہدہ نہ صرف اسرائیل، فلسطین اور عرب دنیا کے ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس معاہدے کے مختلف پہلوئوں پر بات چیت کی گئی۔
قیدیوں کے تبادلہ اس اعتبار سے دلچسپ تھا کہ اس میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے جنگی قیدی بنائے گئے ایک اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو اسرائیل کے حوالے کیا اور اس کے بدے میں اسرائیلی زندانوں میں قید ایک ہزار 50 فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرایا۔ ان میں بعض ایسے اسیران بھی شامل تھے جنہیں اسرائیل کے خلاف مسلح جدو جہد اور یہودی آباد کاروں اور فوجیوں کو قتل کے الزام میں کئی بار عمر قید کی سزائوں کا سامنا تھا۔
مصر کی ثالثی کے نتیجے میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان یہ سب سے بڑا معاہدہ تھا جس میں ایک ہزار سے زاید فلسطینیوں کو رہا کیا گیا۔ یہ معاہدہ دراصل فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے اسیران کے اہل خانہ کے ساتھ کیا گیا وعدہ ایفا کیا گیا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق 25 جون 2006ء کو اتوار کے روز علی الصباح عزالدین القسام بریگیڈ نے مشرقی رفح میں کرم ابو سالم کے مقام پر دو مزاحمتی کارروائیوں میں ایک اسرائیلی فوجی کو ہلاک اور ایک کو زخمی کرنے کے ساتھ ساتھ گیلاد شالیت کی شکل میں ایک قیمتی شکار بھی حاصل کرلیا۔ اس کارروائی میں القسام بریگیڈ کے دو کارکنوں محمد فروانہ اور حامد الرنتیسی نے جام شہادت نوش کیا تھا۔
یہ کارروائیاں صہیونی فوج پر ایک کاری ضرب تھی جس کے بعد صہیونی فوج پر سیکیورٹی کے حوالے سے فلسطینی مزاحمت کاروں کے سامنے ناکام رہنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ صہیونی ریاست نے اپنے ایک فوجی کے جنگی قیدی بنائے جانے کے بعد اس کی بازبای کے لیے طقت کے استعمال سمیت تمام حربے استعمال کیے۔ سنہ 2008 کے آخر اور 2009ء کے شروع میں غزہ کی پٹی پر فوج کشی کی مگرصہیونی دشمن فلسطینی مجاھدین کے آہنی ہاتھوں سے صہیونی فوجی کو نہیں چھینا جاسکا۔ آخر کار صہیونی ریاست کو فلسطینی مجاھدین کی سخت شرائط قبول کرتے ہوئے اسرائیلی جیلوں میں قید ایک ہزار سے زاید فلسطینی مرد و خواتین قیدیوں کو رہا کرنا پڑا۔
صہیونی ریاست کی خفیہ یونٹ جو قیدیوں کا پتا چلانے کے لیے تشکیل دی گئی تھی بری طرح ناکام رہی تھی۔ اس کے برعکس القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الضیف نے صہیونی ریاست کی اس خفیہ یونٹ کے بارے میں تفصیلات نشر کر کے دشمن کو بھی حیران کر دیا تھا۔
القسام بریگیڈ نے جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجی کے ساتھ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانی احترام پر مبنی سلوک کیا اور اسے ہرقسم کی مادی اور معنویت معاونت اور بنیادی ضروریات فراہم کی گئیں۔
گیلاد شالیت کی سیکیورٹی پر مامور کئی مجاھدین نے اپنی ذمہ داری کے دوران اور محاذ پر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ ان میں سامی الحمایدہ، عبداللہ علی لبد، خالد ابو بکرہ، محمد رشید دائود، عبدالرحمان المباشر، محمد ابو شمالہ اور راید العطار شامل ہیں۔
اسرائیل جب طاقت اور جاسوسی کے ذریعے گیلاد شالیت تک رسائی میں ناکام رہا تو اس نے مذاکرات کا راستہ چنا۔ چنانچہ 11 اکتوبر 2011ء کو حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے ایک بیان میں کہا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے ایک فارمولے پر اتفاق ہوگیا ہے۔
معاہدے کے تحت اسرائیل نے اپنے ایک فوجی کے بدلے میں 1027 فلسیطنیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا۔
رہائی پانے والوں میں فلسطینی نژاد اردنی خاتون احلام تمیمی بھی شامل تھیں۔ مجموعی طور پر اسرائیل کو 7 45 سال قید قید کی سزائیں معاف کرنا پڑیں۔
اس فہرست میں پرانے اسیران میں محمد ابو خوصہ بھی شامل تھے جب کہ رہائی پانے والے کسی ایک تنظیم سے نہیں بلکہ فلسطین کی تمام نمائندہ جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں حماس، تحریک فتح، اسلامی جہاد، عوامی محاذ برائے آزاد فلسطین، جمہوریہ محاذ، وادی گولان کے اسیران اور عیسائی قیدی بھی اس کا حصہ تھے۔ یہ معاہدہ بنجمن نیتن یاھو کی حکومت میں ہوا۔ نیتن یاھو نے اس پر کہا تھا کہ یہ معاہدہ ان کی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ ہے۔