اسرائیلی جیل میں زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ایک بھوک ہڑتال فلسطینی ماہر عبداللطیف الاخرس عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ ماہرالاخرس نے 85 دن قبل بلا جواز انتظامی قید کے خلاف بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال شروع کی تھی جو آج بھی جاری ہے۔ بھوک ہڑتال کی وجہ سے اسیر کی زندگی شدید خطرے سے دوچار ہے مگر وہ رہائی یا شہادت تک احتجاجی بھوک ہڑتال جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
ماہر الاخرس نے اپنی بلا جواز انتظامی قید کے خلاف بہ طور احتجاج 27 جولائی کو بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ وہ انتظامی قید پرآج بھی چٹان کی طرح قائم ہے اور اپنی شہادت یارہائی تک بھوک ہڑتال جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ ماہر الاخرس کی یہ پہلی انتظامی قید نہیں بلکہ وہ اس سے قبل مختلف ادوار میں چار سال انتظامی قید کاٹ چکے ہیں۔
انتظامی قید اسرائیل کے ہاں ایک ایسا مکروہ حربہ ہے جس کا مقصد فلسطینی قوم کا اجتماعی یا انفرادی سزا دینا ہے۔ انتظامی قید میں کسی بھی فلسطینی شہری کو بغیر کسی الزام کے ڈالا جاسکتا ہے۔ اس قید کے تحت پابند سلاسل فلسطینیوں کے خلاف مقدمہ کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی اوربلکہ انتظامی قید کا تمام عمل خفیہ رکھا جاتا ہے۔
ماہر الاخرس کا معاملہ اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز ہے۔ اگرچہ سزا کا یہ ظالمانہ اور مکروہ حربہ برطانوی سامراج سے مستعار لیا گیا مگر اسرائیلی قانون کے آرٹیکل 273 میں فوج داری آرڈر 1651 کے تحت بھی کسی بھی فلسطینی کو بغیر کسی انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔
برطانیہ نے سنہ 1945ء کو فلسطین میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے وقت انتظامی حراست کا قانون نافذ کیا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی فلسطینی کو فوج داری عدالت کے جج کے حکم پر غیرمعینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔
جس فلسطینی کو انتظامی قید کے تحت حراست میں لیا جاتا ہے اس کے بارے میں اسرائیلی انٹیلی جنس افسروں کی فراہم کردہ معلومات کو بنیاد بنایا جاتا ہے اور وہ معلومات صرف جج کو بتائی جاتی ہیں جس کے ذریعے انتظامی قید کی سزا دلوائی جاتی ہے۔
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیلی ریاست کی اس پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ کسی شہری کو اس پرعاید کردہ الزام بتائے بغیر اسے قید میں رکھنا بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے کیونکہ حراست میں لیے گئے فلسطینیوں کو خود بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان پر کیا الزام عاید کیا گیا ہے۔
انتظامی کےتحت پابند سلاسل فلسطینیوں کو اپنے دفاع کے لیے خود بات کرنے یا وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ بہ ذات خود انسانی حقوق کی ایک سنگین پامالی ہے۔ کوئی قیدی یہ نہیں جان سکتا کہ عدالت میں اس کے خلاف کس نوعیت کی من گھڑت معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
اس وقت اسرائیلی جیلوں میں 350 فلسطینی انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل ہیں جب کہ رواں سال جنوری سے اب تک 431 فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
انتظامی قید کی سزا کے لیے فلسطینیوں میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ ہرعمر اور جنس کے لوگ اس قید کا شکار کیے جاتے ہیں۔ 18 سال سے کم عمر کے بچے بھی انتظامی قید کا شکار ہوتے ہیں۔ انتظامی قید کی سزا کم سے کم دو ماہ، یا تین یا اور زیادہ سے زیادہ چھ ماہ ہوتی ہے اور یہ سلسلہ اس کے بعد لا متناعی عرصے تک قید کی تجدید کی شکل میں جاری رہتا ہے۔ سنہ 1967ء کے بعد اب تک 50 ہزار فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔