چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینی اتھارٹی مشکل ترین حالات سے گذر رہی ہے: ابو مرزوق

بدھ 14-اکتوبر-2020

اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن ڈاکٹر موسیٰ ابو مرزوق نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح اس وقت مشکل ترین حالات سے گذر رہی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے امریکا، اسرائیل، عرب ممالک کے بدلتے رویے، مالی بحران اور دیگر مسائل کی وجہ سے اتھارٹی کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

صوت الاقصیٰ ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں‌نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس قوم سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں‌بچا ہے۔

ابو مرزوق نے کہا کہ موجودہ مرحلے میں حماس تحریک فتح کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے اور قومی مفاہمت کے لیے کوششیں کررہی ہے۔ دونوں جماعتوں کا ہدف فلسطینی قوم میں پائے جانے والے اختلافات دور کرکے فلسطینی قوم کے نصب العین کے لیے مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نے کہا کہ فلسطینیوں کی باہمی مصالحت علاقائی اور عالمی ایشو نہیں بلکہ یہ فلسطینی قوم کا معاملہ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ فلسطین اس وقت مشکل دور سے گذر رہا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے ملی بھگت سے فلسطینی قوم کا محاصرہ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا مالی اور سیاسی محاصرہ کر کے فلسطینی قوم کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو مرزوق نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس ملک وقوم کے مفاد کے لیے کام کر رہی ہے مگر ہم صہیونی دشمن کے سامنے نہیں ‌جھکیں گے۔

انہوں‌ نے کہا کہ امریکا کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی پر مالیاتی دبائو، فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد بند کرنے، عرب ممالک کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو قرض کی ادائی سے انکار اور ماضی میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے انحراف جیسے واقعات نے فلسطینی اتھارٹی کو ایک بڑی مشکل میں ‌ڈال دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کا کوئی بچہ بھی صہیونی دشمن کے سامنے سر نہیں جھکائے گا۔ موجودہ مشکل حالات کو سامنے رکھتے ہوئے حماس اور تحریک فتح نے مل کر آگے بڑھنے اور موجودہ بحرانوں سے نکلنے کا عزم کیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ابو مرزوق نے کہا کہ حماس کے وفد نے ایک ایسے وقت میں روس کا دورہ کیا ہے جب فلسطینی قوم مشکل ترین حالات سے گذر رہی ہے۔ آج کے دن ماضی سے بہت مختلف ہیں۔

انہوں نے کہا کہ قضیہ فلسطین ماضی میں عرب ممالک کا مرکزی حل طلب معاملہ رہاہے۔ ماضی میں عرب ممالک قضیہ فلسطین کے منصفانہ حل کی قراردادوں پر متفق رہے ہیں۔ سنہ 2002ء میں بیروت میں‌ ہونے والے عرب سربراہ اجلاس میں قضیہ فلسطین کے حل کے لیے ایک فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔ اس فارمولے پر تقریبا بیشتر عرب ممالک کا اتفاق تھا۔

ایک سوال کے جواب میں ابو مرزوق نے کہا کہ حالیہ عرصے کے دوران ہم امریکا اور بعض دوسرے ممالک کے دبائو کےتحت بعض عرب ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ دوستی کی مہم کی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ ان ممالک نے امریکا کی خوش نودی کے لیے قضیہ فلسطین کو فراموش کر دیا ہے۔ ان ممالک اپنی ہی منظور کی گئی قراردادوں کی نفی اور مخالفت شروع کی ہے۔

ابو مرزوق نے کہا کہ اسرائیل سے دوستی کی حمایت اور مخالفت کے معاملے پر اس وقت عرب ممالک دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ تاہم اس کے نتیجے میں قضیہ فلسطین کا دفاع کم زور ہوا ہے۔ عرب ممالک میں پائے جانے والے اختلافات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک چھ ممالک نے عرب لیگ کے وزارت خارجہ سطح کے اجلاس کی صدارت قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس انکار کا پس منظر عرب لیگ کے فورم پر اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کا معاملہ ہے۔ چند ہفتے قبل عرب لیگ کے اجلاس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی مذمت پرمبنی قرار بعض با اثر ممالک کی مداخلت کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھی اور عرب لیگ اس حوالے سے کوئی مذمتی بیان جاری نہیں کرسکی۔ اس بیان میں امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی  مذمت کی گئی تھی تاہم عرب ممالک نے اس قرارداد کی حمایت نہیں کی۔

ابو مرزوق نے کہا کہ اس وقت ہم عرب دنیا میں پائے جانے والے اختلافات کا تذکرہ کررہے ہیں۔ کئی عرب ممالک پہلے ہی داخلی عدم استحکام سے دوچار ہیں۔ شام اور  لیبیا جیسے عرب ممالک خانہ جنگی سے تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ کئی عرب ممالک خطے میں ایران کے مزعومہ اثررو نفوذ کی آڑ میں اپنی ساری توجہ ایران کی طرف مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ان کے نزدیک فلسطین کا مسئلہ ثانوی نوعیت سے بھی پیچھے چلا گیا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی