جمعہ کے روز فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں اسرائیلی فوج نے ناکے سے گذرنے والے ایک فلسطینی ڈینٹل سرجن ڈاکٹر نضال اکرم جبارین کو ایک صوتی بم سے حملہ کرکے شہید کردیا۔ ڈاکٹر جبارین کی شہادت پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیتے ہوئے ایک پیشہ ور ڈاکٹر کی بغیر کی وجہ کے قتل کی واردات کی بین الاقوامی سطح پرآزادانہ تحقیقات کی جائیں اور اس واقعے کے قصور واروں کو قرار واراقعی سزا دی جائے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ہنس مکھ فلسطینی ڈاکٹر نضال جبارین جنوبی جنین میں قائم اپنے کلینک سے جمعہ کی شام واپس گھر کو لوٹ رہے تھے کہ راستے میں لگائے گئے اسرائیلی فوج کے ناکے سے انہیں گذرنا پڑا۔ ناکے پرموجود صہیونی فوجیوں نے انہیں روکنے کے بجائے ان پر دانستہ اور قتل کے ارادے سے ایک بم پھینکا جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔
یہ المناک اور افسوسناک واقعہ دیوار فاصل کی وجہ سے جنین شہرسے الگ تھلگ ہونے والے برطعہ قصبے کے قریب پیش آیا۔
یہاں پر اسرائیلی فوج نے ایک چوکی قائم کررکھی ہے جسے برطعہ چوکی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوںکی بڑی تعداد گذر کر سنہ 1948ء کے فلسطینی شہروں کو جاتی ہے اور یہ ان علاقوں اور جنین میں فلسطینیوں کی آمد ورفت کا ایک ‘انٹری پوائنٹ’ ہے۔
اگرچہ اس چوکی سے گذرنا آسان نہیں مگر فلسطینی سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں آمد ورفت کے لیے اسی چوکی سے گذرنے پرمجبور ہیں۔
برطعہ میںایک بازار بھی قائم ہے جہاں سےشہر کے باشندے اپنی بنیادی ضرورت کی اشیا کی خریداری کرتے ہیں۔ یہاں پر متعدد کلینک اور ڈسپنسریاںقائم ہیں۔
غرب اردن کے دوسرے شہروں بالخصوص جنین کے باشندوں کے لیے اس چوکی سے گذرنا ایک آزمائش سے کم نہیں۔ یہ ایک چوکی یا گذرگاہ نہیں بلکہ اسرائیلی فوج کا بلیک میلنگ کا ایک اڈہ ہے جہاں سے گذرنے والے ہر فلسطینی کو اپنی جان پرکھیل کر گذرنا پڑتا ہے۔
اسرائیلی فوج کی ہنگامی چوکیاں
فلسطینی کاروباری شخصیت محمد شواھنہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سے کرونا کی وبا نے گھیرا ہے جنین میں اقتصادی نظام مفلوج ہو کررہ گیا ہے۔ رہی سہی کسر اسرائیلی ریاست کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں اور ناکوں نےنکال دی ہے۔ جنین سے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں آمد ورفت کے لیے الجملہ گذرگاہ مختص ہے مگر اسرائیل نے کرونا کی آڑ میں یہ گذرگاہ بھی سیل کررکھی ہے۔ حالانکہ غرب اردن کے دوسرے شہروں کی گذرگاہیں کھل دی گئی ہیں۔ اس گذرگاہ کی بندش سے جنین کے فلسطینی باشندوں کو مشکل ترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں اور جنین کے درمیان آمد ورفت میں رکاوٹیں کھڑی کرکے مقامی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کرنے کی مجرمانہ پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
جنین کے مقامی باشندے ہی نہیںبلکہ یہاں کے بازاروں کے گاہکوں میں سنہ 1948ء کے فلسطینی بھی شامل ہیں۔ یہاں سے شہری علاج کے لیے برطعہ جیسے علاقے میں قائم اسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں آتے ہیں۔
الجلمہ چوکی اور گذرگاہ بند ہونے کے باعث ڈاکٹر نضال اکرم جبارین جیسے شہریوںکو بھی برطعہ جی ہنگامی چوکی یا ناکے سے گذر کر سفر کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر جبارین کے بزدلانہ قتل کی واردات کے بعد یہ واضحہوگیا ہے کہ صہیونی فوج حقیقت میں جنین کے شہریوں کی نقل وحرکت پابند لگا کر ان پر عرصہ حیات مزید تنگ کررہی ہے۔ ایک نہتے اور معصوم ڈاکٹر کا وحشیانہ قتل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست بلا امتیاز فلسطینیوں کی نسل کشی پرعمل پیرا ہے۔ چپے چپے پر قائم کی گئی نام نہاد چوکیوں اور ناکوں کا مقصد یہی ہے کہ فلسطینیوں کو آزادانہ نقل وحرکت مشکل بنا دی جائے اور ان کا جینا حرام کردیا جائے۔