امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان طے پایا معاہدہ ابراہیم خطے اور مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے تحفظ اور ایران کے خلاف محاذ مضبوط کرنے کے لیے کیا گیا۔
پومپیو نے "فاکس نیوز” کودیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ابو ظبی اور تل ابیب تہران کو بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ امارات اور "اسرائیل” کے مابین تعلقات قائم کرنے کے معاہدے کے ذریعے ایران کو امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے سے روکنے کے لیے راہ ہموار کی گئی۔؛’
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین معمول کے معاہدے کو تاریخی قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک "اسرائیل” کے یہودیوں کا آبائی وطن ہونے کے حق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں جیسا کہ ہونا چاہیئے۔ متحدہ عرب امارات کو ڈھائی دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ لگا جس کے بعد اس نے بالآخر اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ رفتہ رفتہ دوسرے ممالک بھی امارات کی پیروی کریں گے۔
ادھر تہران میں الجزیرہ ٹی وی کے ڈائریکٹر عبدالقادر فائز نے کہا ہے کہ تہران میں یہ تاثر عام ہے کہ امریکا اور اسرائیل نے امارات کو خطے میں اپنا نیا پلیٹ فارم بنا کر ایران کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی منصوبہ بندی کی ہے تاہم ایران اپنے خلاف بننے والے اس علاقائی اتحاد سے غافل نہیں بلکہ تہران اپنے دفاع کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ ایران کی حکومت امارات اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کو سرخ لکیر عبور کرنے کے مترادف قرار دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تہران کو یقین ہے کہ متحدہ عرب امارات کو اعلی سطح کے ہتھیاروں کی فراہمی سے خطے میں اسلحے کی ایک بڑی دوڑ کا آغاز ہوگا ، جس کی ذمہ داری ابو ظبی پر عائد ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ امارات اور "اسرائیل” کے مابین اتحاد زیادہ دن نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ یہ عوام کے مسترد شدہ مخصوص ٹولے کا اتحاد ہے جسے خطے کے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے۔