گذشتہ کچھ عرصے سے جہاں ایک طرف امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ جاری ہے وہیں امریکا کے سب سے بڑے اور مضبوط اتحادی اسرائیل کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
ایک اسرائیلی رپورٹ نے خبردار کیا گیا ہے کہ چین اور امریکا کی باہمی تجارتی رسا کشی سے اسرائیل متاثر ہوسکتا ہے۔ چین امریکا کی صف میں کھڑے ہونے پر اسرائیل پر پابندیاں بھی عاید کرسکتا ہے۔ رپورٹ میں اشارہ کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ اسرائیل کی صف بندی چین کو اس کے خلاف تعزیراتی اقدامات اٹھانے پر مجبور کرسکتی ہے جس سے اسرائیلی معیشت متاثر ہوگی۔
تل ابیب یونیورسٹی کے نیشنل سیکیورٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں چینی اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر ایال پروپیئر جو چین میں "اسرائیل” کے قونصل خانے اور سفارت خانے میں سفارتی عہدوں پر فائز ہیں نے عندیہ دیا کہ حال ہی میں امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اس بات پر متفق ہونے والا ہے کہ وہ چینی کمپنی ہواوے کا 5G نیٹ ورک استعمال نہ نہیں کرے گا۔
اگرچہ چین نے باضابطہ طور پر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم میڈیا میں سے ایک سینیر صحافی نے چینی حکومت کے حوالے سے کہا کہ اسرائیل اور چین کے درمیان طے پانے والے تجارتی معاہدے میں یہ بات شامل ہے کہ اسرائیل تجارتی معاملات میں امریکا یا کسی دوسرے ملک کے دبائو میں نہیں آئے گا۔
پروبیئر نے مزید کہا کہ چینی حکومت ایسے ممالک کے خلاف پابندیوں کی پالیسی پر عمل کرتی ہے جو چینی مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ بعض اوقات کسی ملک اور امریکا کے درمیان قریبی تعلقات اور کھلے عام امریکی پالیسی کے ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ سے چین کے مخالفین کو پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اسرائیل امریکا کی ڈکٹیشن قبول کرتا ہے تو اس سے چین کے تجارتی مفادات متاثر ہوں گے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ اسرائیل اور چین کے باہمی تجارتی تعلقات بھی متاثر ہوں گے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ امریکا گاجر اور چھڑی کی پالیسی پر چلتا ہے جب کہ چین کا موقف واضح ہے کہ اگر امریکا اسرائیل پر دبائو ڈال کر اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے نتیجے میں بیجنگ اور تل ابیب کے درمیان تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔