فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کے منظم امتیازی اور نسل پرستانہ سلوک کے نت نئے مظاہر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک نیا اور مکروہ نسل پرستانہ ہتھکنڈہ سامنے آیا جب صہیونی حکام نے فلسطینی خاندانوں کو اپنے نومولود بچوں کے ہمراہ بیرون ملک سفر کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ بچوں کے ساتھ سفر کی اجازت نہ ملنے کے باعث دسیوں خاندان بیرون ملک سفر سے محروم ہوگئے ہیں۔
غرب اردن اور اردن کے درمیان فلسطینیوں کے رابطے کے لیے استعمال ہونے والی الکرامہ گذرگاہ پراب صرف صہیونی فوج اور اسرائیلی عملہ تعینات ہے۔ جب کہ فلسطینی اتھارٹی کے عملے کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
رام اللہ سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی خاندان کا کہنا ہے کہ وہ بیرون ملک سفر کے لیے الکرامہ گذرگاہ پہنچے تو انہیں کیا گیا کہ انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ان کے پاس ایک نومولود بچی ہے جسے اسرائیلی بارڈر گذرگاہ کے ریکارڈ میں درج نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس بچی کے ساتھ وہ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے۔
واپس آنے والے خاندان کا کہنا ہے کہ گذرگاہ پر تعینات ایک اسرائیلی فوجی افسر نےکہا کہ تمہیں بیرون ملک سفر سے کیوں جانے سے روکا جا رہا ہے یہ بات جا کر ابو مازن سے کہو جنہوںنے ہمارے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کردیا ہے۔
بیرون ملک سفرکرنے والے فلسطینیوں کواردنی ایئرلائن کی ٹِکٹ کی بُکنگ کے ساتھ الکرامہ گذرگاہ پر اسرائیلی حکام کو بھی بھاری فیس ادا کرنے پرہیں۔
رواں سال 20 مئی 2020ء سے لےکر اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے کے اعلان تک 25 ہزار بچے پیدا ہوئے ہیں۔ صہیونی ریاست نے ان بچوں کو تسلیم کیا۔ اسرائیلی حکام کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم ہونے سے قبل فلسطینی وزارت داخلہ کی طرف سے صہیونی حکام کو یہ بتایا گیا تھا کہ کوئی بھی فلسطینی چاہے وہ پاسپورٹ کا حامل ہو یا اس کے پاس فلسطین کا قومی شناختی کارڈ ہو۔ اسے کسی بھی گذرگاہ سے گذرنے کی اجازت حاصل ہے۔ یہ پالیسی 1993ء میں طے پائے اوسلو معاہدے سے قبل کے دور سے جاری ہے۔
فلسطینی قانون دان تحسین علیان کا کہنا ہے کہ صہیونی حکام کا نومولود بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ سفر کی اجازت دینے سے انکار اس امر کا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست غرب اردن کے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا نیا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
انہوںنے کہا کہ غرب اردن کے فلسطینی شہریوں پر سفری پابندیوں کا یہ پہلا موقع نہیں۔ غرب اردن کے نئے بچوں کو تسلیم کرنے سے انکار یا ان کی رجسٹریشن سے فرار سے اسرائیل یہ تاثر دے رہا ہے کہ ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کا وجود برداشت نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہی امتیازی سلوک سنہ 1948ء اور مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی باشندوں کو ایک عرصے سے درپیش ہے۔ صہیونی ریاست انہیں بھی تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی بھی سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں اور القدس کی حدود کے اندر بسنےوالوں کی شناختی دستاویزات جاری کرنے سے انکار کر رہی ہے۔
علیان کا کہنا ہے کہ فلسطینی باشندوں بالخصوص نومولود بچوں کو تسلیم کرنےسے انکار کرکے اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔