متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کے اعلان کے بعد اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں شائع اور نشر ہونا شروع ہوئیں کہ افریقا کا ایک بڑا عرب ملک جو اس وقت سعودی اتحاد کاحصہ ہے وہ صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔ یہ ملک سوڈان ہے اور اس کی موجودہ عبوری قیادت صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی خبروں پر سوڈان میں سوشل میڈیا پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا اور شہریوں نے سوڈان کے تین دیرینہ اصولوں کو دہرانا شروع کردیا جن پر برسوں سے عمل کیا جا رہا تھا۔ یہ تین اصول تین چیزوں کے انکار یا نفی پر مشتمل تھے۔یعنی اسرائیل کے ساتھ نہ تو صلح کی جائے گی، نہ اس کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے اور نہ صہیونی ریاست کو تسلیم کیا جائے گا۔ مگر سوڈانی وزارت خارجہ کی طرف سے سامنے آنے والے متضاد بیانات نے اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے دعوئوں کو تقویت پہنچائی ہے۔
سوڈانی وزارت خارجہ کے ترجمان جو بعد میں مستعفی ہوگئے نے امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کو سراہا اور کہا کہ اس سے خطے میں امن مساعی کو آگے بڑھانے اور استحکام میں مدد ملے گی۔ تاہم سوڈانی وزیر خارجہ نے ترجمان کے بیان کے بعدکہا کہ اسرائیل کے ساتھ سوڈان کے تعلقات کے قیام پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور نہ ہی خرطوم حکومت نے ایسے کسی معاملے پرغور کیا ہے۔
سوڈال میں سوشل میڈیا پر اس پر سخت رد عمل سامنے آیا اور حکومت کے متضاد موقف کو اسرائیل کے ساتھ قربت کے معنوں میں لیا گیا۔ سوڈانی وزارت خارجہ کے ترجمان حیدر بدوی نے اندر کہ بات کہہ کر ایک بھونچال پیدا کیا مگر خود وہ عہدے سے سبکدوش ہوگئے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے تبصروں نے اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کی دوستی کو فلسطینی قوم کی آزادی کے لیے جاری جدو جہد کو تباہ کرنے اور فلسطینی قوم کے ساتھ خیانت کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ اسرائیل کے ساتھ دوستی سے سوڈان کے اقتصادی مسائل حل نہیں ہوںگے۔
سول سوسائٹی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سوڈان کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے اسرائیل کے حوالے سے ہمیشہ تین چیزوں کی نفی پرعمل کیا ہے۔ وہ تین انکار اسرائیل سے صلح سے انکار، مذاکرات سے انکار اور صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے سے انکار ہیں۔
ڈاکٹر تاج عثمان نے ٹویٹر پر لکھاکہ سوڈانی وزارت خارجہ کے متضاد موقف سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ حکومت اس طرح کا بیان داغ کر عوام کا رد عمل جاننے کی کوشش کررہی ہےتاکہ عوام کا موڈ اور اس کا جوابی بیانیہ دیکھا جاسکے۔
اسامہ بلا نے لکھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے اگر کسی ملک کے اقتصادی مسائل حل ہوتے اور جنوبی سوڈان کے ہوچکے ہوتے جس کے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے کئی سال بیت گئےہیں۔ یہ ایک احمقانہ سوچ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے سوڈان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہہ پڑیں گی۔
سوشل میڈیا ورکر محمد فیاض نے لکھا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا فلسطینی قوم کے حقوق کی نفی کرنے کے مترادف ہے۔ سوڈانی انسانی اقدار پر یقین رکھنے والی قوم ہے اور ہم فلسطینی قوم کے انسانی حقوق کی سودے بازی کی قیمت پر صہیونی ریاست سے تعلقات کو قبول نہیں کریں گے۔
ودا عثمان نے لکھا کہ سوڈان میں اس وقت کوئی منتخب حکومت نہیں بلکہ عبوری حکومت قائم ہے۔ یہاں اس وقت کوئی عوام کی منتخب پارلیمنٹ نہیں۔ اس لیے عبوری حکومت کو فیصلہ کن نوعیت کے مسائل میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ اس طرح کا کوئی بھی کام منتخب پارلیمنٹ پرچھوڑ دینا چاہیے۔
محمد عبدالجبار نے لکھا کہ معزول صدر عمر البشیر واحد رہ نما نے جنہوںنے تہیا کررکھا تھا کہ وہ صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی نہیں کریں گے اور اسرائیل سے دوستی کرنے والوں کو کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ انہیں ایک سازش کے تحت اقتدار سے ہٹایا گیا ہے۔