اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کے ساتھ دوستی کرنے کرنے والے ممالک تاریخ کے گھنائونی جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور نہ فلسطینی قوم اس پر جرم پر خاموش رہے گی۔ تمام عرب ممالک بھی صہیونی دشمن کے سامنے جھک جائیں مگر فلسطینی قوم خون کے آخری قطرے تک اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کرے گی۔
عرب ٹی وی چینل ‘TRT ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کا اعلان کرکے تاریخ، انسانی اقدار، عرب ممالک کے اجماع اور عالم اسلام کے اجتماعی فیصلوں سے انحراف ہے۔ امارات نے فلسطینی قوم میں غداری کا خنجر گھونپا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ابو ظبی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
ایک سوال کے جواب میں ھنیہ نے کہا کہ اسرائیل کے قریب آنے والے ممالک تین طرح کے اوہام کا شکار ہیں۔ پہلا وہم یہ ہے کہ عرب اقوام اس وقت کمزور ہو رہی ہیں اور اسرائیل فتح مند ہے۔ مگر ان کا یہ نقطہ نظر غلط ہے۔ مسلم امہ اس وقت زوال اور شکست سے دوچار نہیں۔ فلسطینی قوم تمام تر بے سروسانی کے باوجود ایک قابض اور غاصب دشمن کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے۔
دوسرا وہم بعض عرب ممالک کے حکمرانوںکو ہے کہ اصل آئینی پالیسی داخلہ نہیں بلکہ خارجہ ہے۔ انہیں اپنی بقا کے لیے امریکا کی مدد درکار ہوگی اور امریکا کی مدد اسرائیل کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں۔
تیسرا گمان یہ ہے کہ صہیونی ریاست امن اور خطے کی اقوام کے ساتھ مل کرآگے بڑھنا چاہتی ہے مگران کایہ گمان بھی غلط کے کیونکہ صہیونی دشمن اپنے ظلم، تشدد اور غاصبہ قبضے، توسیع پسندی اور استعماری پالیسی پرقائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم خود خطے میں گیم چینجر بنے گے۔ کسی دوسرے ملک کی طرف سے فیصلہ مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
غزہ میں اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے مصری حکام سے ہونے والی بات چیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ھنیہ نے کہا کہ مصر نے ماضی میں بھی صہیونی جارحیت روکنے کے لیے فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور صہیونیوں کے درمیان ثالثی کی۔ ہم نے اپنے اصولی مطالبات مصر کو پہنچا دیے ہیں اور اب ہمیں ان کے جواب کا انتظار ہے۔