جمعه 15/نوامبر/2024

امارات کا اسرائیل سے معاہدہ ‘ عرب اجماع سےاعلان بغاوت’

بدھ 19-اگست-2020

متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے اعلان اور امریکا کی طرف سے غاصب صہیونی ریاست کی اندھی سرپرستی دونوں ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں اور دونوں اپنے اندر قضیہ فلسطین کے حوالے سے ایک ہی جیسے خطرات سموئے ہوئے ہیں۔

بنیادی اصول یہ ہے کہ امارات کا اسرائیل کے ساتھ ایک غیر فطری اقدام ہے ہے۔ اس اعلان کا سب سے زیادہ نقصان قضیہ فلسطین اور فلسطینیوں کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کو ہوگا۔ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کے لیے بولنے والی آوازیں دب جائیں‌گی۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات نئے نہیں مگر ان کا صرف باقاعدہ اعلان پہلی بار کیا گیا ہے۔ امریکا ایک طرف ایران کو دیوار سے لگانے کی مجرمانہ پالیسی پرعمل پیرا ہے اور دوسری طرف قضیہ فلسطین کے حل کے لیے ہونے والی منصفانہ کوششوں کو تباہ کرنے کے لیے اپنے قریبی عرب ممالک کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے۔

اسرائیل اور امارات کے درمیان باہمی تعلقات کے نتیجے میں دونوں ملک ایک دوسرےسے سفارتی دوستی قائم کریں گے۔ دونوں کے درمیان فضائی سروس شروع کردی گئی ہے۔ امارات اور اسرائیل کے درمیان آنے والے دنوں میں سیاحت، دفاعی، ٹیلی کام، ٹیکنالوجی، تونائی، پانی، صحت، ثقافت اور ماحولیات کے شعبوں میں اعلانیہ معاہدے اور مشترکہ سرمایہ کاری کے اعلانات ہونے والے ہیں۔

اس وقت اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کرپشن کی وجہ سے اندرون ملک دبائو میں ہیں اور دوسری سیاسی جماعتیں ان کے استعفے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ شکست خوردہ نیتن یاھو کو ٹرمپ نے امارات کے ساتھ دوستی کی شکل میں ایک نیا تحفہ دیا ہے۔ دوسری طرف اس اقدام سے ٹرمپ نے امریکا میں دائیں بازو کے یہودی بنیاد پرستوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ آمدہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرسکیں۔

امارات کا مفاد
علاقائی سطح پر ایران کے خلاف امریکا اور اسرائیل کے ایران کے خلاف بیانیے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنا امارات کی خواہش ہے۔ دونوں ملک آنے والے عرصے میں ان شعبوں میں تعاون کریں جن کے ذریعے خطے میں ایران کی سرگرمیوں کو محدود کیا جاسکے گا۔
اخباری اطلاعات بتا رہی ہیں کہ امارات کے بعد بحرین اور سلطنت اومان بھی اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام میں جلد بازی کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ دونوں ملک بھی اس وقت امریکا کے گہرے دوست ہیں اور دونوں ہی امریکا کے دبائو میں آتے رہتے ہیں۔ خاص طورپر بحرین کو ایران کے خلاف امریکا اور اسرائیل کی مدد درکار ہے۔

تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات مخفی نہیں تھے۔ دونوں ملکوں کی قیادت گذشتہ برسوں کے دوران امریکی آشیر باد سے ملاقاتیں کرتی اور باہمیی تعاون کے مختلف ذرائع پر عمل کرتی رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے محمد مصلح‌کا کہنا تھا کہ امارات ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ایران خطے میں اپنا اثرو نفوذ بڑھا رہا ہے اور مزعومہ خطرے کے تدارک کے لیے امارات کو اسرائیل جیسے دوست اور معاون درکار ہیں۔
دوسری طرف عربوں اور اسرائیل کے درمیان دوستی سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سیاسی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ٹرمپ جو آئندہ نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیابی سے مایوس دکھائی دیتے ہیں کو عربوں اور اسرائیل کے درمیان اتحاد پیدا کرکے اپنی کامیابی کے امکانات پیدا کرنے میں دلچسپی ہے۔

مشرق وسطیٰ‌کے لیے امریکی صدر کے ‘سنچری ڈیل’ منصوبے کے اعلان کے وقت بھی امارات اور بعض دوسرے عرب ملکوں کے سفیر موجود تھے۔

اسرائیل کے مفادات
دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو داخلی سطح پر کئی بحرانوں کا شکار ہیں۔ ملک کی ابتر معاشی حالت اور کرونا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کے بعد عوامی سطح پر نیتن یاھوکو سخت دبائو اور تنقید کا سامنا ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران ان کے خلاف ملک گیر بڑے بڑے مظاہرے ہوچکےہیں جن میں نتین یاھو سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔

امارات کے ساتھ دوستی کی شکل میں نیتن یاھوکو اپنے خلاف جاری عوامی احتجاج کی لہر کی شدت کم کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ وہ اسرائیلی رائے عامہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ خاص طور پر صہیونی ۔ مسیحی طبقے کی ہمدردیاں سمیٹنے میں انہیں مزید آسانی ہوسکتی ہے۔

نیتن یاھو نے امارات کے ساتھ معاہدے کو سنہ 1967ء کی جنگ کےبعد سب سے بڑی کامیابی اور فتح قراردیا ہے۔ ساتھ ہی نیتن یاھو نے کہا ہے کہ امارات کے ساتھ معاہدے میں غرب اردن پر اسرائیل کی خود مختاری سے دست بردار کی کوئی شرط شامل نہیں۔ اسرائیل نے سنہ 1967ء کی سرحدوں پر واپسی کے مطالبے کے باوجود عرب ممالک سے تعلقات کےقیام میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

محمد مصلح کاکہنا ہے کہ اسرائیل کے دائیں بازو کے انتہا پسند بالخصوص صہیونی ۔ مسیحی طبقہ نیتن یاھو کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ امارات کے ساتھ معاہدے کے بعد نیتن یاھو کے خلاف جاری عوامی احتجاج کی تحریک اور ان کے استعفے کے مطالبے میں نرمی دکھائی دے رہی ہے۔
اس وقت ایک طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان معاہدے کرا رہےہیں اور دوسری طرف عرب ممالک کی بادشاہتوں کو بھی تحفط دینے کی کوشش میں ہیں۔ عرب ممالک کو قضیہ فلسطین اور فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق کے ساتھ کوئی غرض نہیں۔ انہیں صرف اپنا اقتدار عزیز ہے جس کے لیے وہ فلسطین ، مسجد اقصیٰ، فلسطینی مقدسات اور فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق پر سودے بازی میں بھی کوئی باق نہیں رہا ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی