دوشنبه 05/می/2025

‘امارات کا اسرائیل سے دوستی معاہدہ عرب دنیا کے ماتھے پر بدنما داغ ہے’

ہفتہ 15-اگست-2020

جمعرات 13 جنوری 2020ء کا دن بالعموم پورے عالم عرب اور عالم اسلام بالخصوص اہل فلسطین کے لیے ایک مایوس اور تاریک ترین دن قرار دیا جائے گا۔ اس روز سیاہ کے موقعے پر امریکا کی مشرق وسطیٰ کے لیے ناجائز اولاد یعنی صہیونی ریاست کی خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کے ساتھ دوستی کا علی الاعلان اظہار کیا گیا۔ امارات کی بادشاہت نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے امریکیوں اور صہیونیوں کا سہارا لینے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اماراتی قیادت کے اس غیر منصفانہ اور فلسطین دشمن پرنہ صرف اہل فلسطین بلکہ پوری دنیا کے زندہ ضمیر سراپا احتجاج ہیں۔ عرب اقوام میں بھی اس فیصلے پر سخت عوامی رد عمل سامنے آیا ہے۔ امارات کے قریبی خلیجی ملکوں کی حکمران قیادت اس پر خاموش ہے مگر حقیقی معنوں میں امارات کے اسرائیل سے معاہدے پر خوش دکھائی دیتی ہے۔ البتہ جہاں تک عرب اقوام کا تعلق ہے تو وہ متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے پر آگ پر لوٹ رہے ہیں۔

جمعرات کی شام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ‘ٹویٹر’ پر پوسٹ کردہ ایک ٹیو میں کہا کہ ہمارے دو عظیم دوستوں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان باہمی سطح پر غیرمعمولی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ یہ پیش رفت دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ اعلانیہ تعلقات کے قیام کا اعلان ہے۔

اس کے ساتھ ہی اماراتی ولی عہد محمد بن زاید نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں‌نے فلسطینی اراضی کا اسرائیل سےالحاق روکنے کے لیے صہیونی ریاست کے ساتھ باہمی تعاون کا معاہدہ کیا ہے۔ شیخ زاید نے کہا کہ انہوں‌ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے ٹیلیفون پر گفتگو کی ہے۔

اماراتی ولی عہد نے کہا کہ امارات اور اسرائیل دونوں دو طرفہ تعلقات کے آغاز کے لیے ایک روڈ میپ کی تیاری پر متفق ہوگئے ہیں۔

اسرائیل اور امارات کے درمیان دوستی کے اعلان کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر اس اقدام پر سخت غم وغصے کا اظہار شروع ہوگیا۔ فلسطین اور عرب ممالک کی نمائندہ شخصیات اور تجزیہ نگاروں‌نے اس فیصلے کے مضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے باور کرایا کہ اسرائیل کے ساتھ امارات کی دوستی عرب دنیا کے ماتھے پر بدنما داغ بن کر ابھرے گا۔

تجزیہ نگاروں نے اسرائیل ۔ امارات تعلقات کے اعلان پراپنے رد عمل میں اسے فلسطینی قوم، قضیہ فلسطین، فلسطینیوں کی قربانیوں کے ساتھ خیانت قرار دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امارات نے ایک فیصلہ کن اور نازک موڑ پر صہیونی ریاست کے ساتھ دوستی کا اعلان کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل غرب اردن پراپنے قبضے کی تیاری کررہا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس کو ہتھیانے کا پہلے ہی منصوبہ بنا چکا ہے۔ مزید فلسطینی اراضی کو ضم کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔

تجزیہ نگار رضوان الاخرس نے کہا کہ امارات کا فیصلہ مسلم اور عرم اقوام کے ماتھے پر بدنامی کا ایک داغ ہے۔ امارات نے فلسطینی قوم کے حقوق، مقدسات اور فراموش کی جانے والی امنگوں کی قیمت پر ظالم اور مجرم صہیونیوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار ایاد القرا نے فیس بک پر لکھا کہ امارات نے خود کو صہیونی ریاست کی گودل میں‌ڈال دیا۔ اگرچہ امارات کا یہ اقدام کوئی نئی اور حیران بات نہیں۔ دونوں ملکو‌ں کے درمیان غیراعلانیہ تعلقات ایک عرصے سے چلے آ رہے تھے۔

تجزیہ نگار ذوالفقار سویرجو کا کہنا ہے کہ عرب کا سیاسی نظام توت کے پتے کی طرف گرچکا اور اب یہ درخت مکمل طور پر برہنہ ہوچکا ہے اور اس کے گرے پتوں پر تل ابیب کے ننگے پائوں چلنے والے چلیں گے۔

فلسطینی سماجی کارکن رامی عبدہ کا کہنا ہے کہ امارات اور اسرائیل میں دوستی نئی بات نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب اسے اعلانیہ کردیا گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ اسے اپنی ایک عالمی کامیاب سفارت کارے کے ایک پتے کے طور پر استعمال کرے گا۔ انہوں‌ نے کہا کہ فلسطینی قوم کو ایسے تمام دوست نما دشمنوں کے قریب جانے سے باز رہنا چاہیے جو دوستی کی آڑ میں دشمن کےساتھ ہاتھ ملا کر پیٹھ میں خنجر گھومپ دیتے ہیں۔ امارات نے یہی کچھ کیا۔ ابو ظبی فلسطینیوں کے ساتھ دوستی کی بات کرتا ہے مگر اسرائیل کے دوستی کرکے اس نے فلسطینی قوم کے ساتھ مجرمانہ خیانت برتی ہے۔

بسام الصالحی کا کہنا ہے کہ امارات کا فیصلہ فلسطینی قوم کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے میں مترادف اور فلسطینیوں‌کے ساتھ سب سے بڑا فراڈ ہے۔

احمد جرار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امارات کی دوستی فلسطینیوں کے زخموں پرنمک پاشی کے مترادف ہے۔ تاریخ اسرائیل جیسے سفاک دشمنوں اور غاصبوں کے ساتھ دوستی کرنے والوں کو کوڑے دان میں ‌ڈال دے گی۔

صحافی عمار قدیح کا کہنا ہے کہ ہمارا خون ، ہمارے زخم، ہماری قربانیاں امریکا اور اسرائیل کے چیلوں نے سستے داموں فروخت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ اس کی واضح‌مثال امارات کا فیصلہ ہے۔ امارات کی قیادت نے فلسطینی قوم کے حقوق کی قیمت پر صہیونی دشمن سے دوستی کا ہاتھ ملایا ہے۔

ناجی شکری کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے دوستی کرکے فلسطینی قوم کی قربانیوں‌کی سودے بازے کرنے والے، شہدا کی قربانیوں کو فراموش کرنے دشمن کے جرائم پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔

عراقی صحافی عثمان المختار نے کہا کہ میں ذاتی طور پر امارات کے اعلان پر حیران نہیں ہوا۔ ابو ظبی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ماضی میں بھی مختلف شکلوں میں دیکھے گئے ہیں۔ مغربی میڈیا سے باخبر رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ امارات اور اسرائیل میں کس حد تک دوستانہ مراسم پہلے ہی قائم ہوچکے ہیں۔ مگر مجھے حیرت یہ ہوئی ہے کہ امارات نے اسرائیل سے اعلانیہ دوستی کوغرب اردن کے علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کے پیچھے چھپانے کی مذموم کوشش کی ہے۔

قطری دانشور جابر المری کا کہنا ہے کہ امارات کی اسرائیل سے دوستی خلیجی ممالک، عرب دنیا اور عالم اسلام کے لیے ‘یوم سیاہ’ ہے۔

کویتی خاتون دانشور ھیا الشطی کا کہنا ہے کہ اس دور کے زندوں اور مردوں پر لعنت ہو۔ اسرائیل سے دوستی کرنے اور اس پر خاموش رہنے والوں پر تا قیامت پھٹکار برستی رہے۔

مختصر لنک:

کاپی