فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک انٹیلی جنس آپریشن میں دشمن کے خوف اور دبدبے کی دھاک مٹا دی ہے۔
ایک پیچیدہ سیکیورٹی آپریشن جسے فلسطینی مزاحمت کے نقطہ نظر میں اپنی نوعیت کا ایک شاذ و نادرآپریشن قرار دیا گیا ہے۔ یہ انٹیلی جنس آپریشن مسلسل چار سال تک جاری و ساری رہا۔ اسلامی جہاد کے عسکری دستے القدس بریگیڈ کی سیکیورٹی سروس نے یہ آپریشن غزہ سے صیہونی افسران اور ڈبل ایجنٹوں کے مابین رابطے کے مراحل میں زبردست طریقے سے استعمال کیا گیا۔
"دی اسپائڈرز ہاؤس” نامی آپریشن کی تفصیلات المیادین چینل کے ذریعہ نشر کی گئی ہیں۔ اس کی تفصیلات کے لیے ایک دستاویزی فلم تیار کی گئی جسے عربی زبان میں ‘بیت العنکبوت’ یعنی مکڑی کا گھر کا نام دیا گیا۔
اس طرح کے آپریشن سے صہیونی خفیہ ادارے شن بیٹ کے افسران کی بھرتی کارروائیوں کے ذریعے عمل میں لایے جاتے ہیں۔ تاکہ صہیونی ریاست کے سیکیورٹی سسٹم میں نقب لگائی جا سکتے۔ ایسے کسی بھی آپریشن کے لیے اسرائیلی فوجیوں اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور ان کی مدد سے سیکیورٹی سسٹم میں نقب لگا کر فلسطینی مزاحمت کاروں کے منصوبے کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔
مبصرین اور تجزیہ کاروں نے سکیورٹی کے پیچیدہ آپریشن کو مزاحمت کے میدان میں ایک بڑی ترقی قرار دیا ہے۔ اس سے مزاحمتی قوتوں کی انٹیلی جنس اور سراغ رسانی کے میدان میں مجاھدین کی اعلی کارکردگی کا پتا چلتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار عبد اللہ العقاد نے کہا کہ کوئی بھی سیکیورٹی آپریشن دماغی صلاحیت پرمبنی ہے۔ کوئی آپریشنل کارروائی پیچیدہ ذہن کی اختراع ہوسکتی ہے۔
مبصرین کے مطابق اس طرح کے پیچیدہ انٹیلی جنس آپریشن صہیونی انٹلیجنس سسٹم میں اضطراب ، جنون اور ناکامی کو برقرار رکھتے ہیں اور صہیونی ریاست کے اندر سیکیورٹی حکام کو دوسری طرف ذمہ داری عائد کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ایاد القرا نے کہا کہ مزاحمت کے مابین خفیہ ذہنوں کی جدوجہد مستقل عمل ہے اور اس سے کئی جہتیں اٹھتی ہیں ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک پیچیدہ کمانڈنگ عمل ہے جس کے خلاف مزاحمت کی صفوں میں داخل ہونے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے وسیع تجربے کے ساتھ فوجی ذہنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی ذہن صہیونی سیکیورٹی ذہن کو سمارٹ انداز میں شکست دے سکتا ہے اور اس نے بہت سے سکیورٹی آپریشنوں میں ایسا کیا ہے۔
اس دستاویزی فلم میں یہ بتایا گیا ہے کہ بات چیت کرنے کا طریقہ اور سوچنے کا طریقہ یہ ہے کہ دشمن اپنے ایجنٹوں کو بھرتی کرتے ہوئے اس کا پیچھا کرتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دشمن کو کیسے بھٹکایا جاسکتا ہے۔
فوجی امور کے تجزیہ کار رامی ابو زبیدہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کو صیہونی سیکیورٹی اور انٹلیجنس سسٹم کو ایک نئے سیکیورٹی ضرب لگانے کی حیثیت سے بیان کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ قابض ریاست اس عمل میں مزاحمت کو گھسانے میں ناکام رہا اور اس کی بڑھتی ہوئی طاقت اور قابلیت کو روکنے میں ناکام رہا۔
القدس بریگیڈ نے اس پیچیدہ عمل میں چار سالہ طویل عرصے اور محتاط انتظام کے دوران بڑی کامیابی ریکارڈ قائم کیے۔ ابو زبیدہ کے مطابق نتیجہ یہ ہے کہ دشمن کے ساتھ انٹیلی جنس جدوجہد ذہن کی جدوجہد ہے جو محتاط انداز میں کام کرتے ہیں اور دشمن کی کمزوریوں اور انٹیلیجنس رازوں کو ظاہر کرتے ہیں۔