فلسطین میں کرونا کی وبا نے فلسطینی قوم کی مشکلات میں کئی حوالوں سے اضافہ کیا ہے۔ اس خوفناک وبا کی موجودگی میں بھی صہیونی ریاست اپنے توسیع پسندانہ جرائم کو آگے بڑھانے، فلسطینیوں کے گھروں کومسمار کر کے ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے کی ظالمانہ پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ کرونا کی وبا کے ساتھ ساتھ حالیہ مہینوں کے دوران فلسطینی اراضی پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے ہتھکنڈوں اور فلسطینیوں کے گھروںکی مسماری کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دوسری طرف قابض صہیونی ریاست فلسطینی علاقوں بالخصوص غرب اردن کے اسرائیل سے الحاق کے لیے سرگرم ہے۔
فلسطین میں یہودی آباد کاری کے امور کے ماہر عبدالھادی حنتش نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے اور مکانات کی مسماری نئی بات نہیں۔ جب سے صہیونی ریاست قائم ہوئی ہے اس وقت سے فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تمام حربوں کا مقصد فلسطینیوں پر عرصہ حیاتنگ کرنا اور غاصبانہ قبضے کے اقدمات کو وسعت دینا ہے۔
انہوںنے کہا کہ فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری اور زمینوںپرقبضے کا مقصد فلسطینی اراضی کے اسرائیل سے الحاق کے پروگرام پر تیزی سے عمل درآمد کرنا اور تمام خالی علاقے یہودی آباد کاروںکے مفادات کے لیے قبضے میں لینا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حنتش نے کہا کہ صہیونی ریاست ہرسال غرب اردن میں اوسطا 500 فلسطینی املاک کو مسمار کرتا ہے۔ ہر سال 1000 سے 1500 تک مسماری کے نوٹس جاری کیے جاتے ہیں۔ فلسطینیوں کو اپنی مرضی کے تحت اپنی زمین پرگھر تعمیر کرنے یا کسی قسم کی تعمیر وتوسیع کی اجازت نہیں دی جاتی۔
طوباس گورنری کے انتظامی امور کے ماہر معتز بشارات نے مرکزاطلاعات سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی اردن میں فلسطینیوںکو مکانات خالی کرانے اور ان کے گھروںکی مسماری میں تیزی دراصل فلسطینی علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کے پروگرام میں تیزی لانا ہے۔
معتز بشارات کا مزید کہنا تھا کہ حال ہی میں اسرائیلی حکام نے مشرقی نابلس میں بیت دجن اور فروش گائوں میں ایک نئی سڑک کی کھدائی شروع کی۔ اس کھدائی کا مقصد وادی اردن کو الحمرا نامی ایک یہودی بستی کے ساتھ جوڑنا ہے۔
انہوںنے کہا کہ فلسطینی علاقوں میں الحاق کا صہیونی منصوبہ زبانی نہیں بلکہ اعلانیہ اور عملی ہے۔ صہیونی حکومت نے فرش اور بیت دجن کے مقامات کو یہودی کالونیوںمیں ضم کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کرچکی ہے۔
معتز بشارات کا کہنا تھا کہ اس وقت صہیونی ریاست نے وادی اردن کے 88 فی صد علاقوں پر اپنا غاصبانہ تسلط جما رکھا ہے۔ وادی اردن کے ایک بڑے علاقے پر فوجی کیمپ قائم ہیں اور انہیں فوجی علاقے قرار دے کر فلسطینیوں کو وہاں سے نکالا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی اور سیاحتی مقامات کی آڑ میں بھی وادی اردن کے ایک وسیع رقبے پر قبضہ کیا گیا ہے۔ کچھ علاقوں پر زرعی فارم اور کارخانے قائم کیے گئے ہیں۔ ان تمام پروگرمات کے نتیجےمیں سنہ 1967ء کے بعد 50 ہزار فلسطینیوں کو گھروںبے گھر کیا گیا ہے۔
انہوںنے بتایا کہ شمالی وادی اردن میں ایک لاکھ 15 ہزار فلسطینی آباد ہیں۔ یہ فلسطینی 27 مختلف قصبوں میں تقسیم ہیں۔ ان قصبات کا رقبہ 18 ہزار دونم ہے۔ دوسری طرف تین لاکھ دونم پر صہیونی ریاست قابض ہے۔
ان کا کہناتھا کہ صہیونی حکام کی طرف سے وادی اردن اور مغربی کنارے میں توسیع پسندی اورفلسطینیوں کے گھروں کی مسماری کے جبر کے پس پردہ الحاق کے مکروہ پروگرام کو عملا آگے بڑھانا ہے۔