اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ کے سیاسی بیورو کے سابق سربراہ خالد مشعل کے ساتھ عرب تھنکنگ فورم کے ذریعہ منعقدہ ٹی وی مکالمے کی وسیع گونج کے بعد فورم نے فلسطین کے قومی منصوبے پر خالد مشعل کا ویژن پیش کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ فلسطینی علاقوں کے اسرائیل سے الحاق کے منصوبے کا کیسے مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
خالد مشعل کا یہ ویژن جو 46 صفحات پر مشتمل ایک مکالمے کی شکل میں ہے میں کئی اہم عنوانات شامل کیے گئے ہیں اور انہیں اس ویژن میں قضیہ فلسطین کی موجودہ حیثیت ، الحاق کے اسرائیلی ۔ امریکی مننصوبے اور سنچری ڈیل نامی نام نہاد امریکی امن منصوبے کے مضمرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
انہوں نے اپنے ویژن میں فلسطینی علاقوں کے صہیونی ریاست سے الحاق کے حوالے سے درج ذیل نکات کی شکل میں روشنی ڈالی ہے۔
1- "الحاق کے اوقات، اس کے خدو خال، اس کے خطرات،الحاق کے فیصلے کے تباہ کن مضمرات
خالد مشعل نے کہا کہ امریکی انتظامیہ کے اشارے خاص طور پر صیہونی حکومت کے شراکت داروں (نیتن یاہو – گانٹز) کے درمیان کچھ اختلافات کی وجہ سے بہ ظاہر الحاق کا منصوبہ موخر کیا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صہیونی ریاست اور امریکا کی مدد سے مرحلہ وار الحاق کے پروگرام پرعمل درآمد جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل عالمی برادری ور رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے ساتھ دھوکہ دہی کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اور اسرائیل میں "الحاق”فیصلے کی حکمت عملی کے انتظام سے متعلق تھوڑا سا فرق ہے تاہم اس پرعمل درآمد میںکوئی فرق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ لمحات سخت ترین چیلنج سے بھرپور اور طوفانی خطرات سے پرلیکن ہمارے پاس ایک ہی موقع ہے۔
ان چیلنجوں اور خطرات میں سب سے نمایاں تین ہیں:
پہلا چیلنج: ابھرتے ہوئے خطوط کے ذریعہ فلسطین کے مسئلے کو ختم کرنے کے اسرائیلی امریکی منصوبوں کی تیزرفتاری ایک اہم چیلنج ہے۔ امریکا کا سنچری ڈیل منصوبہ ، "الحاق” کا فیصلہ ، اور القدس کی یہودیریت میں تبدیل کرنا ہے۔
دوسرا چیلنج: ایک موثر فلسطینی ایکشن پلان عدم موجودگی اور اس تاریخی لمحے کی رہ نمائی کی ذمہ داری پوری قیادت کی عدم موجودگی۔
تیسرا چیلنج: عرب ممالک اور مسلمان ممالک میں قضیہ فلسطین کے حوالے سے جرات مندانہ موقف کا نہ ہونا ہے۔
خالد مشعل نے کہا کہ ان اہم چیلنجوں اور خطرات کے ہوتے ہوئے جو اہم مواقع پیدا ہوتے ہیں ہم ان پر کام کرسکتے ہیں۔
پہلا: فلسطینی قوم کی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنا،
دوسرا: مزاحمت اور مسلح جدوجہد کی کوششیں تیز کرنا اور مزاحمت کے محاذ کو مزید مضبوط کرنا۔
تیسرا: سرزمین فلسطین پر قابض ریاست کے اقدامات کو ناکام بنانے کے لیے لائحہ عمل طے کرنا۔
چوتھا: دنیا کے سامنے فلسطین کے مسئلے کی شبیہہ کو درست انداز میں پیش کرنا تاکہ اصل امیج پر لوٹنے کا تاریخی لمحہ حاصل کیا جاسکے۔
دوسرا محور
خالد مشعل نے "الحاق” کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لئے فلسطینی قومی پروگرام کا ویژن پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کی سب سے نمایاں خصوصیات یہ ہے کہ فلسطینی قیادت اور مزاحمتی قائدین اور دھڑے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر قابض ریاست کے خلاف ایک محاذ قائم کریں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے کئی بار اعلان کیا کہ وہ صہیونی ریاست سے ہرطرح کے تعلقات ختم کرنے کرنے کی تیاری کررہی ہے مگر ان اعلانات پرعمل درآمد نہیںکیا گیا۔ اس کے نتیجے میں فلسطینی عوام میںیہ احساس پیدا ہوا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے ہی کیے گئے اعلانات پر عمل درآمد میں سنجیدہ نہیں۔ اگر فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون سمیت تمام دیگر تعلقات ختم نہیں کرتی تو صہیونی دشمن کے خلاف متفقہ قومی ویژن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ عرب اور مسلمان ممالک کی طرف سے متقفہ حکمت عملی بھی اس کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر فلسطینیوں کا ویژن کامیاب نہیں ہوسکتا۔
جہاں تک پانچویں قدم کی بات ہے تو یہ ایک مشترکہ فلسطینی حیثیت ، ایک متفقہ فیصلہ سازی ہے۔ متفقہ سفارتکاری کے ذریعے علاقائی اور بین الاقوامی منظر نامے پر گامزن ہونا ہے تاکہ ہمارے فلسطین کے مسئلے کو اس کی اصل شکل میں دنیا کے سامنے رکھا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے پاس ہر میدان میں لڑنے کی صلاحیت ہے۔ فلسیطنی قوم میں عظیم انسان ، تخلیقی مزاحمت ، ایک مستند قوم، اور ایک بین الاقوامی میدان ہے جو صیہونی دشمن اور اس کے اقدامات کو ناکام بنا سکتا ہے۔
خالد مشعل نے صہیونی منصوبے کی نشاندہی کرنے والے شواہد کے وجود پر زور دیا اور اس حوالے سے درج ذیل امور پر توجہ دی۔ ان میں اور مزاحمت کے بڑھتے ہوئے کردار اور صلاحیتوں میں اضافہ ہے۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ فلسطینی قومی منصوبے کا ایک سب سے اہم جز فلسطین پر قابض ریاست کے حقوق اور قومی اہداف کی ازسرنو وضاحت اور تجدید ہے۔ اس حوالے سے سرزمین فلسطین ، القدس، پناہ گزینوں کا حق واپسی جیسے اہم ایشوز پر پوری فلسطینی قوم کو ایک صف میں کھڑا ہونا ہوگا۔