اسلامی جمہوریہ ایران کی ایک انقلاب عدالت نے امریکا اور اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنےوالے ایک مجرم محمود موسوی مجد کو پکڑنے کے بعد اس کے خلاف سزائے موت کا فیصلہ سنایا ہے۔ موسوی پر امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے لیے جاسوسی کا الزام ہے۔ تھا۔ اس معاملے کی کئی گتھیاں ہیں جو سلجھنے میں نہیں آ رہی ہیں۔ بالخصوص اس حوالے سے کہ موسوی لبنان میں حزب اللہ تنظیم کے ہتھے چڑھا جس کے بعد اسے تہران کے حوالے کر دیا گیا۔
ایک ناقابل فہم بات یہ ہے کہ ایران نے ابتدا میں یہ اعلان کیا تھا کہ موسوی نے ایرانی پاسدران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی نقل و حرکت کا انکشاف کیا۔ بعد ازاں اس دعوے سے یوٹرن لیتے ہوئے یہ وضاحت کی گئی کہ موسوی نے شام میں ایرانی گروپوں کی نقل و حرکت کے بارے میں جاسوسی کی تھی۔
اس سلسلے میں تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ بعض مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ محمود موسوی مجد کے خلاف سزائے موت کے فیصلے پر عمل درامد ہو گیا۔ ایرانی عدلیہ کے ساتھ منسلک ویب سائٹ "ميزان آن لائن” کے مطابق موسوی کوکل پیر کی صبح موت کی نیند سلا دیا گیا تا کہ ملک کے ساتھ اس کی غداری کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔
اس سے قبل نیم سرکاری میڈیا میں گذشتہ روز ایک رپورٹ نشر کی گئی تھی جس میں نوجوان موسوی کی ایسی تصاویر اور وڈیو کلپوں کو شامل کیا گیا جن سے اس کی رنگین زندگی کا پتہ چلتا ہے۔ خبر رساں ایجنسی انبار فارس کے مطابق موسوی لبنان میں اپنا زیادہ وقت نائٹ کلبوں میں گزارا کرتا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایرانی حکام کو حاصل ہونے والی تصاویر اور وڈیو کلپوں سے یہ انکشاف ہوا کہ موسوی اپنی ظاہری دین داری کے برعکس منشیات کا عادی اور شراب کا متوالا تھا۔
مذکورہ ایرانی خبر رساں ایجنسی نے واضح کیا کہ موسوی اپنے اعترافی بیانات میں یہ بتا چکا ہے کہ وہ سرگرمیوں سے بھرپور اس زندگی کا عاشق تھا اور اس زندگی نے اسے جاسوسی کے نیٹ ورکس تک پہنچانے میں بنیادی عامل کا کردار ادا کیا۔