شنبه 16/نوامبر/2024

وسائل کی کمی کے باوجود فلسطینی مزاحمت کی اسرائیل پر فوقیت

منگل 21-جولائی-2020

اسرائیل اب فلسطینی مزاحمت کے ساتھ تمام حفاظتی تنازعات کی تمام لڑیوں کو تھامنے میں ناکام ہے۔ کیونکہ زمینی حقائق اسرائیل کی  فنی اور لاجسٹک فوقیت کے باوجود صہیونی ریاست کی کم زوری کا واضح ثبوت ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے انٹیلی جنس ادارے غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کی جاسوسی کے میدان میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ دوسری طرف فلسطینی مجاھدین نے وسائل کی کمی کے باوجود اسرائیل کے لیے مخبری کے مقامی نیٹ ورک کو توڑا ہے بلکہ فلسطینی تحریک مزاحمت صہیونی فوج اورانٹیلی جنس اداروں کے اندر نقب لگانے میں کامیاب رہی ہے۔

سنہ 2014 میں غزہ پر مسلط کی گئی اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے بعد  صہیونی دشمن نےغزہ میں اپنے انٹیلی جنس عزائم بڑھا دیے تھے جس میں مزاحمت کے مواصلاتی نیٹ ورک ، اس کے بنیادی ڈھانچے مزاحمتی مراکز کی نشاندہی پر توجہ دی جا رہی تھی۔
سیکیورٹی کاموں کا میدان بالکل بھی پرسکون نہیں ہوتا ہے۔ اسرائیل نے اپنی بہت سی معلومات کے ذرائع کو کھو دیا ہے جو اسے فوجی حملے شروع کرنے میں مدد کرتا ہے اس کے برعکس فلسطینی مزاحمتی جماعتوں نے اسرائیلی خفیہ اداروں کے فلسطینی مخبروں کو بھرتی کرنے کے ذرائع کو توڑا بلکہ فلسطینی مزاحمت نے صہیونی دشمن کی صفوں کے اندر نقب لگائی۔

بیداری اور حفاظت
سنہ 2014 میں غزہ پر آخری جارحیت جس میں قابض فوج نے آنکھ بند کرکےاندھا دھند بمباری کی  میں بھی صاف لگتا تھا کہ صہیونی ریاست کو معلومات کی کمی تھی۔ اسرائیلی فوج فلسطینی مزاحمت کاروں کے مراکز کو نشانہ بنانے کےبجائےعام شہریوں پر اپنا غم و غصہ نکال رہی تھی۔
چونکہ 2000 میں اقصیٰ انتفاضہ کے آغاز میں مزاحمت کی صلاحیتوں کو تقویت ملی تھی اور آج تک یہ واضح ہوگیا کہ قابض اسرائیل نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے انٹیلی جنس کام کو تیز کردیا۔
سیکیورٹی امور کے ماہر محمد لافی نے  کہا کہ اسرائیل اور مزاحمت کے مابین فوجی توازن ایک موسمی جہت کا حامل ہے جبکہ انٹیلی جنس کام مستقل جدوجہد کے طور پر باقی ہے۔
انہوں نے "مرکزاطلاعات فلسطین” سے بات کرتے ہوئے میں مزید کہا کہ مزاحمت نے فلسطینیوں کے لیے ایک  آگاہی اور سماجی ویکسینیشن سازی  کا کام کیا ہے۔اس حوالے سے فلسطینیوں‌نے سنہ 2010ء سے 2013ٕٕٔ تک فلسطینیوں نے اسرائیلی ریاست کے لیے مخبری کی روک تھام کی جاندار مہم شروع کی۔ جبکہ سنہ 2019ء میں قومی تحفظ کی مہم شروع کی گئی جو کامیاب رہی۔اس مہم کا مقصد بھی فلسطینی عوام میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کے خطرات اور اس کی روک تھام کے طریقوں کے بارے میں عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
دوسری طرف جس میں مزاحمت نے اپنے حفاظتی میدان کو تقویت بخشی ہے وہ مشتبہ افراد "افراد اور مقامات” کا تعاقب ہے۔ غزہ میں حکومت کے ساتھ ہر مشتبہ شخص کی فائل تیار کرنے پر عمل پیرا ہے۔ اس تیاری کے دوران اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والے متعدد ایجنٹ بے نقاب ہوئے ہیں۔
لافی کا کہنا ہے کہ کسی بھی مشتبہ شخص کی فائل کی پختگی اس کے بعد اس کی گرفتاری اور سرکاری دائرہ اختیار کے ذریعے تفتیش کے بعد ضروری کارروائی کرنے سے پہلے قابض دشمن کے جدید طریقوں اور مقاصد کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
تاریخی طور پر  جاسوسوں کو بھرتی کرنا اسرائیل کا اہم ہدف رہا ہے مگر غزہ میں مزاحمت نے اس کو آگاہ کردیا اور 2020 میں اپنے معاشرتی حالات سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی ادارہ قائم کیا گیا جو مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کرکے ان کے اسرائیل کے ساتھ ممکنہ روابط کا پتا چلانے کا ذمہ دار ہے۔

فوجی امور کے ایک محقق رامی ابو زبیدہ کا خیال ہے کہ دماغ اور الیکٹرانک اور انٹیلیجنس جنگ کی جدوجہد میں رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ یہ کسی جارحیت یا اضافہ کی کامیابی کا پیش خیمہ ہیں۔

بھرتی اور دخول
اسرائیلی انٹیلیجنس افسران فلسطینی معاشرے کے طرز عمل کو پڑھنے اور لوگوں اور مزاحمتی گروہوں کو معاشرے کے ڈھانچے پر حملہ کرنے اور مزاحمت کے اقدامات کو ناکام بنانے کے لیے بھرتی اور دراندازی کی کوششوں سے باز نہیں آتے ہیں۔
تاریخی طور پر سوویت یونین کے ساتھ امریکا کی کشمکش کے وقت کی بڑی انٹیلیجنس ایجنسیاں بہت کچھ کرنے کے باوجود کھوکھلی ثابت ہوئی ہیں۔

تجزیہ نگار  لافی کہتے ہیں مزاحمت کو تیز کرنے کا کام آسان نہیں ہے۔ دونوں محاذو  کے مابین دماغی جدوجہد جاری ہے جس میں مزاحمت نے ایسی کامیابیاں حاصل کیں جو اس نے میڈیا پر ظاہر نہیں کیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ غزہ کی وزارت داخلہ 10 سالوں سے خلاف ورزی اور بھرتی فائلوں کی پیروی کر رہی ہے۔ قابض اسرائیل کی طرف سے کارڈز کو تبدیل کرنے کی کوشش کو ناکام بنایا گیا ہے۔معاشرے میں عدم استحکام پیدا کرنے اور معلومات اکٹھا کرنے کے لیے اسرائیلی ادارے روایتی اور غیر روایتی طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔

غزہ کی جنگوں میں قابض فوج کی اندھا دھند بمباری  اور بہت سے دوسرے حملے انٹیلی جنس معلومات کی کمی کا واضح ثبوت تھے۔۔اس کے ساتھ ملنے والے مخبروں نے آزادانہ طور پر کام نہیں کیا  لیکن ان میں سے بہت سے افراد مزاحمت کے سامنے ہتھیار ڈال گئے یا وہ اپنے مشن کے دوران ہلاک کردیے گئے۔

محقق ابو زبیدہ نے ” مرکزاطلاعات فلسطین ” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمت نے تکنیکی ترقی اور سلامتی کی بہترین کارکردگی کی وجہ سے قابض دشمن کے عزائم  کو بے نقاب کردیا ہے۔
فوجی تجزیہ کار میجر جنرل یوسف شرقاوی  کا  کہنا ہے دشمن کے دفاعی حصار میں نقب ناممکن نہیں ہے۔

ڈبل ایجنٹ
مزاحمت کو "ریورس بھرتی” یا جسے ڈبل ایجنٹ کے نام سے جانا جاتا ہے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کی پہلی کوشش1987 ء میں ہوئیں ، لیکن حالیہ برسوں میں ڈبل ایجنٹ بھرتی کرنے کےنے مظاہر سامنے آئے ہیں۔
ماہر لافی نے زور دے کر کہا ہے کہ القسام میں ایک خصوصی محکمہ کے مطابق جو 10 سال قبل شروع ہوا تھا نے ایک سے زیادہ ڈبل ایجنٹ کے مشن کو منظم کیا اور ان میں سے کچھ میں کامیابی حاصل ہوئی۔

ڈبل ایجنٹ کی سب سے عمدہ شہادت "مرج” آپریشن ہے ، جو سن 2016 اور 2018 میں ہوا تھا۔ اس مشن کے ذریعے اسرائیل نے جن فلسطینیوں کو اپنی جاسوسی کے لیے بھرتی کیا تھانے کامیابی کے ساتھ دشمن کو دھوکہ دیا۔
اسرائیل کی جانب سے  مزاحمتی گروہوں میں نقب لگانے کے لیے بہت سے افراد کی بھرتی کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل حساس مقامات میں رہنے والے افراد کو بھرتی کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

 

مختصر لنک:

کاپی