ایک طویل انتظار کے بعد بین الاقوامی فوجداری عدالت کا پہیہ مقبوضہ فلسطین میں جنگی جرائم میں ملوث "اسرائیلی” لیڈروں کے تعاقب میں رفتہ رفتہ چلنا شروع ہو گیا ہے۔ دوسری طرف صہیونی جنگی مجرموں کے لیے عالمی فوج داری عدالت ایک ڈروائونا خواب بن چکی ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت فلسطینی حکام کی جانب سے اسرائیلی لیڈروں کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات پر مبنی گذشتہ برسوں میں دائر کردہ متعدد شکایات پر غور کر رہی ہے۔ ان میں سب سے اہم 2014 میں غزہ کی پٹی پر مسلط جارحیت کوبھی شامل کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعہ 2012 میں جاری کردہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت فلسطین یو این کا رکن بن چکا ہے۔ فلسطین نے روم کنونشن میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد فلسطینیوں کو اسرائیلی ریاست کے جرائم کے خلاف تحقیقات کی درخواست دینے کی اجازت دی گئی ہے۔
عدالت کی پراسیکیوٹر ، "فتوؤ بینسودا” نے رواں سال جنوری میں تصدیق کی کہ فلسطینی علاقوں میں قابض اسرائیل کے جنگی جرائم کی مرتکب ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ معاہدہ روم میں شامل ہونے والے ممالک کے میں سے کسی کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی تحقیقات کے لیے راہ ہموار ہوگئی ہے۔
پہلا قدم
بین الاقوامی فوجداری عدالت کا یہ اعلان مغربی کنارے ، غزہ اور مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے متاثرین کے ازالے کی طرف میں ایک اہم اقدام ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی طرف سے 2009 میں غزہ جنگ سے قبل اس کے دوران اور اس کے بعد ہونے والے جنگی جرائم کے معاملات میں جاری کردہ گولڈ اسٹون رپورٹ قابض اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کے ریکارڈ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
"اسرائیل” نے شروع سے ہی "گولڈ اسٹون” کمیٹی کا بائیکاٹ کیا۔ فلسطینیوں نےگولڈ اسٹون رپورٹ کو قبول کیا جس میں مقبوضہ مغربی کنارے اور القدس میں قائم کی گئی یہودی کالونیوں میں جنگی جرائم کی شکایات درج کی گئی تھیں۔ رپورٹ میں فلسطین میں یہودی آبادکاری اوراسرائیلی ریاست کے طاقت کے استعمال کے مکروہ حربوں کو بین الاقوامی قانون ، بین الاقوامی انسانی حقوق اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
بین الاقوامی قانون کے ماہر عبد الکریم شبیر کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی فوج داری عدالت نے کچھ دن پہلے "اسرائیل” اور امریکا کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے طریقہ کار وضع کرنا شروع کردیاتھا۔
انہوں نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اب عالمی عدالت فیصلہ دینے اور اس معاملے میں مینڈیٹ کے وجود کی تصدیق کے لیے پری ٹرائل چیمبر کے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔ پراسیکیوٹر بینسودا کے بیان سے عالمی عدالت کے مینڈیٹ کا وجود ثابت ہوگیا ہے۔
بین الاقوامی فوج داری عدالت امریکا اور یورپی ممالک کے دباؤ میں آگئی تھی۔ تاہم فلسطینیوں اور زندہ ضمیر انسانی حقوق کے کارکنوں نے عالمی عدالت کا دروازہ ایک بار پھر کھٹکٹھایا ہے۔
المیزان سنٹر برائے ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر عصام یونس جنہوں نے غزہ میں بار بار ہونے والی اسرائیلی جارحیت اورجرائم کی دستاویزیزات جمع کیں نے کہا کہ جب عالمی برادری کی طرف سے فلسطینیوں کو انصاف دلانے میں خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے تو فلسطینیوں کو عالمی فوج داری عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں اسرائیلی دشمن کا خاطر خواہ تعاقب نہیں کیا گیا۔