شنبه 16/نوامبر/2024

فلسطینی پناہ گزین اور اقوام متحدہ کے دفاتر میں گم ہونے والی قراردادیں

اتوار 21-جون-2020

سرزمین فلسطین میں یہودیوں کے لیے اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد اقوام متحدہ کے فورمز پر ویسے تو فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں دسیوں قرار دادیں منظور ہوئیں مگر ان میں سے بعض قراردادیں صرف فلسطینی مہاجرین اور پناہ گزینوں کی بحالی کے حوالےسے تھیں۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے فورم پر فلسطینی پناہ گزینوں کی حمایت میں منظور ہونے والی قرادادوں پرکوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ فلسطینیوں کو آج بھی یاد ہے کہ اقوام متحدہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے قرار داد نمبر 242، 338 اور 194 منظور کی۔ ان قراردادوں میں فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو تسلیم کیا گیا اور ان کی وطن واپسی کے حق کی حمایت کی گئی۔ متاثرہ فلسطینیوں کو معاوضہ ادا کرنے کی حمایت کی گئی اور سنہ1967ء کی جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں لیے گئے علاقوں کو خالی کرانے پر زور دیا گیا۔

اس وقت اندرون اور بیرون ملک کم سے کم سات ملین فلسطینی ھجرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ فلسطینیوں کو پوری دنیا میں منتشر کردیا گیا مگر ان کے حق واپسی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہوسکا۔ سنہ 1948ء کی النکبہ کے نتیجے میں ساٹھ لاکھ فلسطینی متاثر ہوئے انہیں ھجرت کرنا پڑی۔

اس وقت فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد مقبوضہ فلسطین ، اردن، شام، لبنان اور دوسرے ملکوں میں انتہائی مشکل اور نا مساعد حالات میں زندگی بسر کر رہی ہے۔

بیس جون 2000ء کو پوری دنیا میں پناہ گزینوں کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر کے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے دنیا کو متحرک کرنا اور اس حوالے سے عالمی برادری کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا تھا۔

النکبہ اور پناہ گزین

پناہ گزینوں کے عالمی دن کے موقعے پر مقبوضہ فلسطین سے بے گھر کیے گئے لاکھوں فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پر آواز بلند کرنا فلسطینیوں کا حق ہے۔ عالمی قرار دادوں ، عالمی قوانین اور بین الاقوامی معاہدوں کی رو ح سے فلسطینی پناہ گزینوں کو ان کےحقوق فراہم کیے جانے کی سفارش کی گئی ہے۔

اس وقت غزہ کی پٹی میں فلسطینی پناہ گزینوں کے 8 رجسٹرڈ کیمپ ہیں۔ اس کے علاوہ غرب اردن میں فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کی تعداد 24، القدس میں 12، لبنان میں متعدد کیمپ اور شام میں 13 فلسطینی پناہ گزین کیمپ، اردن میں تین کیمپ قائم ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے عرب ممالک جن میں عراق بھی شامل ہیں فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی کرتے ہیں۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور عالمی قانون کے ماہر ڈاکٹر عبدالکریم شبیر نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطین میں اسرائیلی ریاست کےقیام کے بعد اقوام متحدہ نے فلسطینی مہاجرین کی  بحالی کے لیے اونروا کےنام سے ایک ریلیف ایجنسی قائم کی۔ مگر اونروا نے حقیقی معنوں میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا۔ اس وقت یہ ادارہ خود معاشی زبوں حالی  کا شکار ہے اور اس نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے کئی ممالک میں اہم نوعیت کی سروسز بھی ختم یا معطل کردی ہیں۔

موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل  نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کی  بہبود کی ذمہ دار ریلیف ایجنسی اونروا کی ساٹھ کروڑ ڈالر کی امداد بند کردی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 194 میں فلسطینی پناہ گزینوں کو ان  کے ملک میں واپس آنے کی حمایت کی ہے۔ سنہ 1967 ء کی جنگ کے ب بعد منظور ہونے والی قراردادوں 242 اور 238 میں مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے کو مقبوضہ علاقے قرار دے کر اسرائیل سے ان علاقوں سے فوجیں نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔

حقائق اور اعداد و شمار

قابض صہیونی ریاست نے ارض فلسطین میں ایک قابض اور غاصب ریاست کا کردار ادا کیا۔ فلسطینی قوم کے خلاف منظم جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ فلسطینیوں کی زمین اور املاک پر ایک قابض اور کولونیل ریاست قائم کی جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو ھجرت پرمجبور کیا گیا۔ صہیونی ریاست آج تک فلسطینیوں کے خلاف ظلم وعدوان کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

ویسے تو فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپ کئی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں مگر ان میں ایک قدر مشترکہ ان کی معاشی بد حالی ہے۔ سب سے ابتر صورت حال لبنان میں موجود فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کی ہے جہاں فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ فلسطینیوں کو کسی قسم کے مالکانہ حقوق، سرمایہ کاری یا، اپنی رہائش گاہوں کی مرمت اور روزگار کے حصول کا حق نہیں۔

تجزیہ نگار صلاح عبدالعاطی کا کہنا ہے کہ امریکا نے ہمیشہ فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے اقوام متحدہ میں اٹھنے والی آواز کو اسرائیل کے حق میں ویٹو کیا۔ سلامتی کونسل میں امریکا نے 79 بار فلسطینیوں کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں ویٹو پاور کا استعمال کیا۔

ستم یہ ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں  کی ھجرت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ بعض علاقوں میں فلسطینی پناہ گزین سنہ 1948ء کے بعد تین یا چار بار ھجرت کرچکے ہیں۔ لبنان میں 70 فی صد فلسطینی پناہ گزین غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں جب کہ 50 فی صد کو اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔

عراق میں سنہ 2003ء کو امریکی یلغار کے بعد 3000 فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی