عرب ممالک اور بین الاقوامی برادری "سنچری ڈیل” کو”معاشی بہبود کا منصوبہ” قرار دے کرسابق فلسطینی لیڈر مرحوم یاسرعرفات کے الفاظ میں امن کی ترغیب کے نام سے نوے کی دہائی کے اوائل میں معاشی امن اور ترقی کے ساتھ مشروط منصوبہ قرار دیا گیا۔
غرب اردن کے الحاق کے منصوبے سے متعدد جامع شعبے متاثر ہوں گے ، ان میں سب سے اہم وادی اردن میں (30 فی صد اراضی پر قبضہ ، فلسطین کی خوراک کے ذخائر اور دیگر مسائل شامل ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے اعدادوشمارکے مطابق فلسطین میں غربت کی شرح عام طور پر 30 فی ہے۔ ان میں سے غزہ میں 45 غرب اردن میں 20 جبکہ بے روزگاری کی شرح غزہ میں 45 فی صد غرب اردن میں 13 فی صد ہے۔
معاشی غلبہ
اسرائیلی ریاست کے غاصبانہ تسلط نے فلسطینی معاشی ڈھانچے کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے فلسطینی اتھارٹی کی منفی کارکردگی کی روشنی میں معیشت کی ترقی کی راہ میں خلل پڑا۔ فلسطینیوں کے حق میں پیرس پروٹوکول کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکا۔
شاید فلسطینی معیشت کو متعدد امورنے مجموعی طورپرمتاثر کیا ہے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ فلسطین کے علاقوں اور بیرونی دنیا کے ساتھ زمینی قبضہ، آبادکاری ، ناکہ بندی ، بندشیں ، لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر پابندی اور معاشی اصلاحات میں خلل شامل ہیں۔
فلسطینی ماہر معاشیات عمر شعبان کا خیال ہے کہ غرب اردن کے الحاق کے منصوبے سے فلسطینی معیشت بری طرح متاثر ہوگی۔ اسرائیل بنیادی طور پر زمین کو اپنی لپیٹ میں لینا چاہتا ہے۔ فلسطینویں کی بڑی اراضی ان کی دست رس سے نکل جائے گی اور زمینی وسائل پر صہیونی ریاست کا باقاعدہ قبضہ ہوگا۔
انہوں نے "فلسطینی انفارمیشن سینٹر” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اپنے وسائل سے فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے۔ غرب اردن کے الحاق کے فلسطینی معیشت کے مستقبل پر شدید معاشی اور مالی مضمرات مرتب ہوں گے۔ قابض کا براہ راست قبضہ ہونے کے بعد بڑے منصوبے اتھارٹی کے اختیار سے نکل آئیں گے جبکہ اسرائیل کے اندر فلسطینی تجارت تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ تمام تجارتی اور کاروباری مراکز پرصہیونی قبضہ کریں گے۔
اسرائیل نے معاشی امن کے نظریہ سے قبول کرنے کے بعد اسرائیل نے نے (1967 ء میں ) قبضے میں لی گئی زمینوں سے دست برداری سے فرار اختیار کرنا شروع کردیا تھا۔
ماضی میں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ہونے مذاکرات میں تقریبا وہی کچھ فلسطینیوں کو کہا گیا تھا جو بعد ازاں امریکا کے "صدی کی ڈیل” منصوبے اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے الحاق غرب اردن منصوبے کی شکل میں ہمیں دیکھنا پڑ رہا ہے۔ سنہ 2014ء میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان معاشی امن منصوبے کے لیے 40 ارب ڈالر کی تجویز پیش کی گئی تھی جب کہ سنچری ڈیل میں اس رقم کا درجہ 50 ارب اڈالر کردیا گیا تھا۔
فلسطینی معیشت دان ڈاکٹر معین رجب کا کہنا ہے کہ فلسطینی اراضی کےالحاق سے فلسطینی قوم زراعت، معدنیات اور دیگر قدرتی وسائل سے محروم ہوجائیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الحاق کے منصوبے کے بعد فلسطینیوں کو ایک بار پھر ہجرت کے امکانات اور فلسطینی اتھارٹی کو اپنے خزانے میں خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔