حالیہ عرصے میں جہاں ایک طرف پوری دنیا میں کرونا کی وبا نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور وہیں عالمی توجہ امریکا اور فلسطین میں امریکیوں اور صہیونیوں کے ہاتھوں ہونے والے نسل پرستی کے واقعات پر بھی مرکوز ہے۔
چند ہفتے قبل امریکا میں سفید فام پولیس کے ہاتھوں ایک نہتے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے وحشیانہ اور اندوہ ناک قتل کے واقعے نے پوری دنیا کو ہلا کررکھ دیا۔
چند ہفتے قبل بیت المقدس میں اسرائیلی فوج نے ایک ذہنی معذور اور نہتے فلسطینی کو اس لیے گولیوں سے چھلنی کردیا کہ وہ ایک فلسطینی تھار اور صہیونیوں کے نظریے کےمطابق ارض فلسطین میں فلسطینی قوم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
پچیس مئی کو اسرائیلی فوج نے مقبوضہ بیت المقدس میں 32 سالہ ایاد الحلاق کوگولیاں مار کر شہید کیا۔ اسے باب الاسباط کے باہر شہید کیا گیا۔
ایک فلسطینی کارٹونسٹ تقی الدین سباتین نے امریکا سے فلسطین تک پھیلے مجرمانہ نسل پرستی کے مظاہر کوخاکوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے بیت لحم شہرمیں دیوار فاصل پر شہید فلسطینیوں کے خاکے تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے منسلک واقعات کو انگریزی میں بیان کیا ہے۔
سباتین کا کہنا ہے کہ امریکی پولیس نے 46 سالہ افریقی نژاد سیاہ فام جارج فلائیڈ کو جس روز بے دردی سے قتل کیا۔ اسی روز فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں صہیونی فوج نے ایاد الحلاق کو نسل پرستی کی بھینٹ چڑھا دیا۔
فلسطینی کارٹونسٹ نے جارج فلائیڈ کی ایک تصویرکے ساتھ لکھا کہ فلائیڈ کی موت نے پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ آج کے اکیسویں صدی کے انسانی حقوق کے دور میں بھی انسانیت کی باتیں کرنا فضول ہے اور نسل پرستی آج بھی قیامت ڈھا رہی ہے۔
سباتین نے ایک دوسرے کارٹون میں لکھا کہ جارج فلائیڈ اور ایاد الحلاق نسل پرستی کی بھینٹ چڑھنے والی آج کی زندہ اور تازہ مثالیں ہیں۔ دونوں نے اپنی جانیں دے کر یہ ثابت کیا ہے کہ آج بھی پوری دنیا میں نسل پرستی، ظلم اور جبر بدستور موجود ہیں۔
سباتین نے اناطولیہ نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جارج فلائیڈ کے کیس کے بعد پوری دنیا کو نسل پرستی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ اس میدان میں ظلم کا شکار ہونےوالا جارج فلائیڈ اکیلا نہیں بلکہ ایاد الحلاق بھی اس ظلم کا شکار ہونے والا ایک ایسا ہی انسان ہے جس نے اپنی جان دے کر بتا دیا کہ نسل پرستی آج بھی زندہ اور موجود ہے۔
خیال رہے کہ امریکا میں جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ملک بھر میں نسل پرستی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ ان مظاہروں نے امریکی حکومت بھی ناک رگڑنے پرمجبور کردیا۔
فلسطین میں اسرائیل کی تیار کردہ دیوار فاصل اب بھی بولتی ہے۔ فلسطینی اخبارات اور جرائد میں بھی فلسطینیوں کے خلاف صہیونی نسل پرستی اور امریکا میں امریکی فوج کی نسل پرستی کو خاکوں اورمضامین کی شکل میں بے نقاب کیا گیا۔ خیال رہےکہ فلسطین میں سنہ 2002ء میں ارئیل شیرون کی حکومت نے نسلی بنیادوں پر دیوار کی تعمیرشروع کی تھی۔ فلسطینیوں نے اس دیوار کو فلسطین میں نسلی دیوار قرار دیا۔