"فلسطین میرا وطن اور میری محبت ہے”۔ یہ الفاظ ایک بنگالی نژاد پاکستانی پائلٹ سیف اللہ اعظم کے ہیں جس نے آج سے 53 برس قبل اسرائیل کی طرف سے فلسطین اور عرب ممالک پر حملے کے جواب میں قابض صہیونی ریاست کو دن میں تارے دکھا دیئے تھے۔ پاکستانی پائلٹ سیف اللہ اعظم نے فلسطینی قوم، عرب عوام اور مسلمانان اسلام کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار عملی طورپر اس جنگ میں حصہ لے کر کیا۔
سیف اللہ اعظم اتوار کےروز اردن میں 80 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے سنہ 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے دوران صہیونی ریاست کےخلاف لڑتے ہوئے بہادری اور جانثاری کے جوہردکھاتے ہوئے بہترگھنٹے میں اسرائیل کے چار جنگی طیاروں کو زمین کی خاک چاٹنے پرمجبور گیا۔
سنہ 1967ء کی جنگ میں فضائی شاہین کے کرتب دکھانے والے سیف اللہ اعظم کی شناخت اگرچہ غیر عرب ہے مگر فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں سے محبت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اس نے چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں جس بہادری اور جانثاری کا ثبوت دیا اس نے نہ صرف اہل پاکستان اور بنگالی قوم کے سر سرخر سے بلند کردیے بلکہ اس نے عرب ممالک اور پوری مسلم امہ کے افتخار میں بھی اضافہ کیا۔ سیف اللہ اعظم نے اس جنگ میں جس جواں مردی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی دشمن کےچار طیارے تباہ کردیے۔
سیف اللہ اعظم حیات وخدمات
سیف اللہ اعظم سنہ 1941 بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند سنہ 1947ء کو ان کی عمرمحض چھ سال تھی اوران کا خاندان کلکتہ میں رہائش پذیر تھا۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد اس کے خاندان نے پاکستان ھجرت کی۔ ا سنے ابتدائی تعلیم پاکستان سے حاصل کی اور زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں گذارا۔
سنہ 1958ء میں سیف اللہ اعظم نے پاکستانی فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اپنے معاصر ہوابازوں میں انتہائی معاملہ فہم، سمجھ دار پیشہ وارانہ مہارت کا حامل ہوا باز تھا۔ پاک فضائیہ کو اس پر بجا طورپر فخر رہا۔ سنہ 1963ء میں اس نے امریکی ریاست اریزونا کے ایک فضائی اڈے میں فضائی تربیت حاصل کی۔
اس تربیتی کورس میں اس نے امریکا کے "ایف 86 سائبر” کی ہوابازی میں مہارت حاصل کی۔ سنہ 1963ء میں اس نے پاکستانی فضائیہ میں اس جنگی طیارے کو اڑانے کی ذمہ داری انجام دی۔
ایک مسلمان اورعرب ہواباز
پانچ جون 1967ء کو سیف اللہ اعظم کو اردنی فضائی سروس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف لڑائی میں شامل کیا گیا۔ اس سے قبل سنہ 1966ء کو سیف اللہ پاک فضائیہ میں مشیر کی خدمات بھی انجام دے رہے تھے۔ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ چھڑنے کے بعد سیف اللہ اعظم کو عمان بھیجا گیا جہاں اس نے اردن کے المفرق فضائی اڈے سے اسرائیلی طیاروں پر متعدد بار حملے کیے۔ اس نے چار حملے کرکے اسرائیل کے چار جنگی طیاروں کو تباہ کیا۔
جنگ چھڑنے کے دوسرے روز سیف اللہ اعظم نے اپنے طیارے کو المفرق ہوائی اڈے سے اڑان بھری اور اردن میں بم باری کے لیے آنے والے طیارے کو خاک میں ملا دیا۔ اسی روز اسرائیل کے ایک اور طیارے کو اردن کی سرحد عبورکرتے ہی تباہ کردیا۔
اردنی فضائیہ میں خدمات انجام دینے اور اسرائیلی طیاروں کو تباہ کرنے کے بعد سیف اللہ اعظم نےعراقی فضائیہ میں شامل کیا گیا۔ اگلے دو حملے اس نے عراقی فضائیہ کی معاونت سے کیے۔ اس طرح اس نے 72 گھنٹے میں اسرائیلی دشمن کے چار طیارے تباہ کردیے۔ سنہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علاحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اسے بنگالی فضائیہ میں شامل کیا گیا۔ 1977ء تک بنگالی فضائیہ کا حصہ رہنے کے بعد 1980ء میں فضائیہ سے رہا ہوگیا۔
سنہ 1991ء میں اس نے بنگالی سیاست میں حصہ لیا اور بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ کا رکن مقرر ہوئے۔ سنہ 1996ء میں امریکی فضائیہ نے اسے اعزازات سے نوازا اور سنہ 2000ء میں سیف اللہ اعظم کو اس وقت کے زندہ 22 ہوا بازوں میں شامل کیا گیا۔
سیف اللہ اعظم کو نہ صرف پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے بلکہ اسے فلسطین میں بھی ایک ہیرو قرار دیا جاتا رہا ہے۔ سیف اللہ اعظم کی وفات پر فلسطینی عوام میں بھی گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں فلسطینی سفارت خانے نے سیف اللہ اعظم کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ سفارت خانے کاکہنا ہے کہ سیف اللہ اعظم کی وفات سے عالم اسلام اپنے ایک عظیم ہیرو سے محروم ہوگیا۔ سیف اللہ اعظم کے انتقال سے وہ فلسطینی قوم کےدلوں سے دور نہیں ہوئے۔ وہ صرف جسمانی طورپر دور ہوئے ہیں۔ روحانی طورپر وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہیں۔
سفارت خانے کا کہنا ہے کہ پائلٹ سیف اللہ اعظم کا شمار عالم اسلام کے بہادر اور ہیروز میں ہوتا تھا۔
فلسطینی تجزیہ نگار یاسر زعاترہ کا کہنا ہے کہ بنگالی ہواباز سیف اللہ اعظم نے چار اسرائیلی جنگی طیارے مار کرگرا کربرسوں قبل فلسطینی قوم کے دل جیت لیے تھے۔ سیف اللہ اعظم نے جس ہمت اور بہادری کے ساتھ صہیونی دشمن کی فضائیہ کا مقابلہ کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ فلسطینی قوم کے بھی محافظ سپاہی تھے۔ انہیں فلسطینی قوم ، عرب اقوام اور عالم اسلام کے ساتھ بھی سچا عشق تھا۔