جمعه 15/نوامبر/2024

"اسرائیل کا سیکیورٹی بائیکاٹ” فلسطینی اتھارٹی کا کھوکھلا نعرہ

اتوار 14-جون-2020

فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اسرائیل کے سیکیورٹی بائیکاٹ کے نعرے اور دعوے بہت ہوتے رہے ہیں مگر ان دعووں میں کسی قسم کی صداقت نہیں دیکھی جا رہی۔ فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد  دعووں اور نعروں پر اسرائیل مطمئن اور فلسطینی عوام میں سخت مایوسی پائی جا رہی ہے۔ حال ہی میں صدر محمود عباس کے مقرب اور ان کے مشیرحسین الشیخ جو اتھارٹی کے سول امور کے انچارج  بھی ہیں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی سیکیورٹی کو برقرار رکھے گی۔ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلیوں کی سیکیورٹی بھی یقینی بنائی جائے گی چاہے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی کوآرڈینیشن رک جاتا ہے تب بھی سیکیورٹی برقرار رکھنا ایک اسٹریٹجک فیصلہ ہوگا۔ .

حسین الشیخ کے بیانات اتھارٹی کے صدرمحمود عباس کے بیانات سے قطعی متضاد ہیں جنہوں نے گذشتہ 19 مئی کو اعلان کیا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او امریکی اور اسرائیلی حکومتوں کے ساتھ معاہدوں اور مفاہمتوں کو ختم کرن کی تیاری کررہی ہے۔ ان معاہدوں اور افہام و تفہیم سے پیدا ہونے والی تمام ذمہ داریوں سے فلسطینی سبکدوش ہو رہی ہے۔ یہ اقدام امریکا کے ٹرمپ امن منصوبے اور غرب اردن کے 30 فی صد  علاقے پر اسرائیلی ریاست کی خود مختاری کے قیام کے رد عمل میں کیا جائے گا۔

فوری طور پر فلسطینی حکومت نے "اسرائیل” کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈینیشن کے سلسلے میں تعطل کے نفاذ کے لیے ہنگامی اقدامات شروع کردیئے اور اسی کے مطابق فلسطینی نیشنل اتھارٹی کے سول افیئرز اتھارٹی کا کام معطل کردیا گیا۔ غزہ کی پٹی میں فلسطین کی وزارت صحت کے شعبہ سروس خریداری (بیرون ملک علاج) اور مالی معاونت حاصل کرنے والے مریضوں کی روانگی کے سلسلے میں ہم آہنگی رک گئی ہے۔

غزہ سے شروعات

دو ہفتوں سے کینسر کا شکار بیمار بچی ، "وداد” کا مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں علاج  کی منتظر ہے اور وہ نہیں جانتی ہیں کہ وہ شاید غزہ میں کینسر کے مریضوں کے علاج  کے المطلع اسپتال میں واپس آسکے گی یا نہیں۔

اس کے والد نے فلسطینی میڈیا سنٹر سے کہا ہے کہ ان کی بیٹی کا علاج غزہ کی پٹی کے اسپتالوں میں دستیاب نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس حالت میں رہنا ان کی  بیٹی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

انسانی حقوق کے المیزان سنٹر کے اعدادوشمار کے مطابق غزہ کی پٹی میں 8،515 کینسر کے مریض زیادہ سے زیادہ سنگین ہوتے جارہے ہیں کیونکہ انہیں مناسب صحت کی دیکھ بھال سے محروم کردیا گیا ہے۔

اس سے قبل  وزیر اعظم رام اللہ محمد اشتیہ نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ غزہ کے مریض غزہ میں علاج کروائیں گے۔

فلسطینی مرکز برائے انسانی حقوق نے اپنے بیان میں غزہ اور "اسرائیل” کے مابین ایک متبادل رابطہ میکانزم کے طور پر اپنا نام "اسرائیلی” میڈیا میں ڈالنے سے انکار کردیا۔ مرکز کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مریضوں کی زندگیوں کے لیے قابض حکام کو مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے جن کے انکار سفری اجازت نہ دینے کی وجہ سے مریضوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔

رد عمل

انسانی حقوق کے ماہر صلاح عبدالعاطی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نمائندے کو بتایا  کہ اب ہم اتھارٹی سے جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ صرف ایک رد عمل ہے نا کہ ایک اسٹریٹجک منصوبہ ہے جو اتھارٹی کی شکل اور اس کے کام کی نوعیت کو بدل سکتا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ اتھارٹی اور "اسرائیل” کے مابین سیکیورٹی کوآرڈینیشن صرف ملاقاتیں اور رابطے نہیں ہیں ، بلکہ ایک متحدہ کمپیوٹر سسٹم پر مبنی ہیں۔ اتھارٹی اور "اسرائیل” اور سی آئی اے کے مابین ایک متحدہ الیکٹرانک نظام میں معلومات کا باقاعدہ تبادلہ کیا جاتا ہے۔

فلسطین کے انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں فلسطینیوں کی باہمی صف بندی اور اسرائیل سے ہرضرورت سے مستثنیٰ ہونے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

مختصر لنک:

کاپی