عرب ممالک میں داخلی سطح پر جاری لڑائیوں اورخانہ جنگیوں نے فلسطینیوں کو مزید نقل مکانی پرمجبور کیا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک بھی پناہ گزینوں کی مشکلات اور دکھوں کا مداوا کرنے کے بجائے مجرمانہ لاپرواہی اور گاہے انتقامی روش پراترآتے ہیں۔
بیرون ملک فلسطینیوں کو کس نوعیت کی مشکلات درپیش ہیں اس کی تازہ اور زندہ مثال یونان میں پھنسی ایک عمر رسیدہ فلسطینی خاتون ام محمد ہیں۔ ام محمد نے شام میں جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں یرموک پناہ گزین کیمپ سے نقل مکانی کی۔ ام محمد اپنے خاندان کے ہمراہ یرموک پناہ گزین کیمپ سے ترکی روانہ ہوئیں۔ اس کی ایک بیٹی اور دیگر اقارب غیرقانونی طور پر یورپی ممالک چلے گئے جب کہ ام محمد یونان میں پہنچنے کے بعد پھنس گئیں۔
ام محمد کی بیٹی جو اس کا واحد سہارا تھی یونان سے یورپ چلی گئی جب کہ ام محمد سفری دستاویزات کی عدم تکمیل کی وجہ سے یونان میں پھنس کررہ گئی۔ اس نے واپس ترکی آنے کی کوشش کی مگر اس کے لیے واپسی کے دروازے بھی بند کردیے گئے۔ اس طرح ام محمد کی زندگی جھنم بن کر رہ گئی ہے۔
ام محمد نے اپنا اصل نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ یونان پہنچنے کے بعد میں ایک پارک میں بیٹھی کہ ایک نوجوان میرے قریب آیا اور میرا پرس چھین کر فرار ہوگیا۔ اس پرس میں نہ صرف میری جمع پونجھی تھی بلکہ اس میں پاسپورٹ اور دیگر تمام سفری دستاویزات بھی تھیں۔ میں نے چیخ پکار کی مگر کسی نے میری مدد نہیں کی۔ اس کے بعد سے میں خالی ہاتھ اور خالی جیب ہونے کے ساتھ اپنے تمام شناختی کاغذات سے بھی محروم ہوگئی ہوں۔
ام محمد کا کہنا تھا کہ میں ایتھنز پہنچی تو میرے پاس تمام سفری دستاویزات تھی۔ کاغذات چوری ہونے کے بعد میرے لیے پولیس کے پاس شکایت کرنے کا بھی کوئی موقع نہیں بچا ہے۔
ام محمد اس وقت بچیوں کے ایک ہاسٹل میں ہے۔ کچھ مخیر لوگوں کی جانب سے دی جانے والی مدد سے میں اپنا گذر بسر کرتی ہوں۔ اس نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی اونروا سے مدد کی اپیل کی۔
تجزیہ نگار علا العراقی نے قدس پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونان میں پھنسی فلسطینی پناہ گزین خاتون یونان کے جزیرہ کوس پہنچی۔ وہاں پر اس کے پاس تمام سفری دستاویزات تھیں مگر جب وہ ایتھنز پہنچی تو اس کے پاس موجود تمام رقم اور کاغذات سب چاس سے چھین لیے گئے۔ وہ یونان کے راستے سویڈن پہنچنا چاہتی تھی۔
اس نے بتایا کہ ام محمد کی بیٹی سفری دستاویزات مکمل کرکے سویڈن پہنچ چکی ہے مگر اس کی ماں ایتھنز میں پھنس کررہ گئی ہے۔