گذشتہ 30 مئی کو مقبوضہ بیت المقدس میں قابض اسرائیلی پولیس کے ہاتھوں ایک ذہنی معذور فلسطینی کے وحشیانہ اور بے رحمانہ قتل کے واقعے میں صہیونی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے نئے شواہد سامنے آئے ہیں۔ عینی شاہدین کے تازہ بیانات نے قابض پولیس کے اس مجرمانہ فعل کے ملوث ہونے کے مزید ٹھوس دلائل نے ثابت کیا ہے کہ معذور 32 سالہ ایاد الحلاق کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بے دردی کے ساتھ اسے معذور سمجھتے ہوئے شہید کیا گیا۔
ہفتے کے روز 30 مئی کواسرائیلی قابض پولیس نے 32 سالہ حلاق پر اس وقت فائرنگ کی جب وہ مسجد اقصیٰ کے قریب اپنے اسکول جارہا تھا۔ فائرنگ کے نتیجے میں وہ موقعے پر ہی دم توڑ گیا۔
نئے شواہد
ایک عینی شاہد نے اسرائیل کے انسانی حقوق گروپ بتسلیم کو بتایا کہ اسرائیلی پولیس کے اہلکاروں نے اس وقت فلسطینی نوجوان ایاد الحلاق کو اس وقت گولی ماری جب وہ زمین پر پڑا تھا۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ وہ ذہنی معذور ہے۔
الحلاق کی رہ نمائی کے لیے اس کے ساتھ آنے والی لڑکی ابو حدید نے بتایا کہ میں شہید الحلاق سے صرف چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ میں نے دیکھا کہ اسرائیلی پولیس اہلکار نے الحلاق پر گولی چلائی اور وہ گولی لگنے سے زمین پر گر گیا۔ میں نے عبرانی زبان میں چلاتے ہوئے کہا کہ ” یہ معذور” ہے۔ اس کے ساتھ ہی الحلاق کی آواز بھی آئی اور اس نے ابو حدید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "میں اس کے ساتھ ہوں”۔ یہ الحلاق کی زبان سے ادا ہونےوالے شاید آخری الفاظ تھے۔
ایک دوسرے عینی شاہد نے بتایا کہ میں باب الاسباط میں صفائی کے عملے کے لیے مختص کمرے میں بیٹھا تھا جب الحلاق اس کمرے کی طرف آیا۔ اس نے بتایا کہ میں نے الحلاق کو دیکھا وہ ٹھیک سے نہیں چل رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ بیمار یا معذور ہے اور اس سے ٹھیک سے چلا نہیں جا رہا ہے۔ عینی شاہد نے بتایا کہ ایک اسرائیلی پولیس اہلکار اس کے پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ وہ چند قدم کے فاصلے پر رک گیا۔ اس وقت الحلاق کے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں تھی۔ میں نے اسرائیلی پولیس افسر کو یہ کہتے سنا کہ "پستول کہاں ہے؟” اس نے یہ سوال الحلاق کو مخاطب کرکے پوچھا۔ اس نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر اس کی بات سمجھ نہیں آسکی۔ ایسے محسوس ہوا کہ وہ بات کرنے سے معذور ہے۔
اسی اثنا میں الحلاق کی گائیڈ ابو حدید اس کے پاس پہنچ گئی اور بلند آواز میں پکارنے لگی کہ ” یہ معذور” ہے۔
عینی شاہد نے بتایا کہ میں یہ ساری کیفیت دیکھ کر اپنی جگہ ساکت و جامد ہوگیا تھا۔ اچانک میں نے فائرنگ کی آواز سنی اور الحلاق کو زمین پر گرتے دیکھا۔ اس کے زمین پرگرنے کے بعد فائرنگ کی ایک اور آواز سنائی دی۔ اسرائیلی پولیس افسر مجھ پر بھی چلایا اور وہاں سے جلدی جلدی بھاگ گیا۔
الحلاق کی گائیڈ ابو حدید نے بتایا کہ وہ الحلاق کو اسکول لے جانے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑی۔ ہم لوگ کوڑا کرکٹ جمع کرنے لیے مختص ایک جگہ پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ اسرائیلی پولیس اہلکار ہمارا پیچھا کررہےہیں۔ باب الاسباط کے مقام پر اسرائیلی پولیس کے کئی اہلکار ان کے قریب آ پہنچے اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔
ابو حدید نے فلسطین کے مرکز برائے انسانی حقوق کو بتایا کہ میں نے اس مقام تک پہنچنے کی کوشش کی تاکہ میں اسرائیلی پولیس اہلکاروں کو بتا سکوں کہ میرے ساتھ ایک معذور شخص ہے۔ اس دوران الحلاق نے بھی دیکھ لیا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ پولیس اہلکاروں سے چھپنا چاہتا ہے۔ میں اس سے چند قدم دور تھی۔ میں نے اسے کہا کہ سنبھل کے چلو میں تمہارے ساتھ ہوں۔
وہ کہتی ہیں کہ واضح تھا کہ وہ مدد کے لیے آواز دے رہا تھا۔ اسی دوران اسرائیلی پولیس نے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور یہ تک نہ دیکھا کہ وہ شخص کون ہے اور اس سے کسی کو کتنا خطرہ ہوسکتا ہے۔ میں چلاتی رہی کہ وہ ایک معذور ہے اور اسے گولی نہ ماری جائے مگر میری پکار پر کسی نے کان نہ دھرے اور اندھا دھند گولیاں مار کر ایک معذور فلسطینی کو گولیوں سے بھون ڈالا۔
شہید کے خاندان کا کہنا ہے کہ الحلاق سات سال کی عمر میں بہ تدریج ذہنی اور جسمانی طورپر معذور ہونا شروع ہوا۔ وہ ذہنی معذوری کے ساتھ ساتھ قوت گویائی اور سماعت سے بھی محروم ہوگیا تھا۔