کرونا کی وبا نے پوری دنیا میں پھیلے فلسطینیوں کی زندگی کو بھی اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں کرونا کی وبا کیا رنگ دکھاتی ہے اور دنیا بھر میں پھیلے فلسطینیوں کو کن مشکلات سے گذرنا پڑ سکتا ہے اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
دیگر ممالک کی طرح ترکی میں بھی بڑی تعداد میں فلسطینی تارکین وطن موجود ہیں۔ ترکی میں کرونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈائون کے دوران فلسطینیوں کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوا ہے۔
ترکی میں مقیم محمد نامی ایک فلسطینی پناہ گزین تین ماہ سے کرونا وبا کی وجہ سے بے روزگار ہیں۔ محمد اس انتظار میں ہیں کہ آیا آنے والے دن اس کے لیے مشکلات کا سامان لاتے ہیں یا اس کے چھن جانے والے روزگار کی بحالی کا ذریعہ بنتے ہیں کیونکہ وہ استنبول کے ایک ہوٹل میں کام کرتے رہے ہیں۔ کرونا کی وبا کی وجہ سے محمد کو اپنے روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے۔
بیس سالہ فلسطینی محمد سنہ 2019ء کو رزق کی تلاش میں بیرون ملک روانہ ہوا۔ محمد ترکی کے لیے روانہ ہونے سے قبل اپنی آنکھوں میں کئی سپنے سجائے ہوئے تھا مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ سفر اس کے لیے مالی اور نفسیاتی مشکلات کا سبب بنے گا۔
غزہ کی پٹی میں الاقصیٰ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل محمد نے قدس پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے وقت میں روزگار سے محروم ہوا ہے کہ اس کے پاس کوئی جمع شدہ رقم نہیں۔ اسے ترکی میں اپنے اقامے کی تجدید کرانے کے ساتھ ساتھ غیرقانونی قیام سے بچانا بھی ہے۔
محمد کا کہنا ہے کہ ترکی میں عرصہ حیات تنگ ہونے کے بعد وہ غزہ کی پٹی واپسی کی تیاری کررہا ہے۔ فلسطینی سفارت خانے کی طرف سے اسے بتایا گیا ہے کہ غزہ کی گذرگاہ کھول دی گئی ہے اور بیرون ملک موجود فلسطینی واپس جا سکتے ہیں۔
ایک فلسطینی نوجوان معلمہ یارا العفیفی نے بتایا وہ ترکی میں ایک عرب اسکول میں درس وتدریس سے مسنلک تھیں۔ کرونا وبا کی وجہ سے انہیں کافی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے آن لائن پڑھانا شروع کیا مگر یہ اس کا اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔
بدترین بحران
معلمہ العفیفی کا کہنا کہ ملازمت چھن جانے کے بعد اس کے لیے دوسری بڑی مشکل فلسطینی قونصل خانے کے ساتھ رابطے میں رکاوٹوں کی وجہ سے آئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے لیے ایک مشکل استنبول میں رہائش کی مشکل تھی کیونکہ اس کے پاس بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے رقم نہیں تھی جب کہ اسکولوں کی بندش اور تنخواہیں رک جانے سے وہ خالی جیب ہوچکی تھی۔ ابھی تک وہ کوئی متبادل اور معقول بندوبست کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
اس نے بتایا کہ اس کا بھائی یونان سے ترکی آنا چاہتا تھا مگر یونانی فوج نے اسے سرحد پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کےپاس تمام سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ حتیٰ کہ اس کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں تھا۔ کرونا بحران کی وجہ سے یونان میں فلسطینی سفارت خانے کی طرف سے بھی اس کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔
اسی سیاق میں بات کرتے ہوئے ترکی میں تین سال سے مقیم اسراء الشریف نے بتایا کہ وہ انقرہ میں اسکالرشپ پر آئی مگر اسے اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب تین اس کی ساتھیوں اور ہم جماعتوں کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہ ہوسکا۔اس کا کہنا تھا کہ میراخاندان غزہ کی پٹی میں مقیم ہے اور فلسطینی اراضی کی طرف واپسی کی کوششیں بھی ناکام ہوگئی ہیں۔
اسراء الشریف کا کہنا ہےکہ ترکی میں فلسطینی سفارت خانے اور قونصل خانے کی طرف سے بھی اس کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ فلسطین سے سیکڑوں شہری جو علاج یا سیاحت کی غرض سےترکی آئے تھے اس وقت پھنسے ہوئے ہیں اور ان کی واپسی نہیں ہوسکی ہے۔
دوسری طرف فلسطینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اس نے مصر اور اردن کے ساتھ ترکی میں پھنسے فلسطینیوں کی واپسی کے لیے رابطے کیے ہیں۔ مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر ترکی میں تعلیمی ادارے کھلتے ہیں تو فلسطینی حکومت وطن واپس آئے طلبہ کی دوبارہ ان کی درس گاہوں تک پہنچانے کی ذمہ دار نہیں ہوگی۔ ایسے میں ہر طالب علم کو بری اور فضائی سفر کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنا ہوں گے۔
فلسطینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک سے لوٹنے والے تمام فلسطینیوں کو وزارت صحت کی طرف سے کرونا پرٹوکول پرعمل درآمد کرنا ہوگا۔
ترکی میں موجود فلسطینییوں کی تعداد 70 ہزار سے زاید ہے۔ ان میں غزہ کی پٹی کے شہری بھی شامل ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر یہ فلسطینی واپس آتے ہیں تو کرونا کی وبا بھی ساتھ لاسکتے ہیں۔