آج سے دس برس پیشتر یورپ، ترکی اور دوسرےممالک کے انسانی حقوق کارکنوں، رضاکاروں، امدادی اداروں کے کارکنوں سیاسی رہ نمائوں نے مل کرفلسطین کے محاصرہ زدہ علاقے غزہ کی پٹی کے عوام کا محاصرہ توڑںے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے فریڈم فلوٹیلا بحری امدادی قافلہ تیار کیا گیا۔ اس قافلے میں ترکی کے کا ایک امدادی جہاز "مرمرہ” بھی شامل تھا۔ غزہ کی طرف سفر کے دوران اسرائیلی بحریہ نے کھلے پانیوں میں بحری قذاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرمرہ پریلغار کردی۔ اس مجرمانہ ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں کم سے کم دس ترک رضا کار شہید اور پچاس زخمی ہوگئے تھے۔ قابض اسرائیلی فوج نے ساڑھے سات سو کے قریب عالمی کارکنوں کو گرفتار اور ہزاروں ٹن امدادی سامان، ادویات، خوراک لوٹ لیے۔
یہ واقعہ آج سے دس سال قبل پیش آیا مگر آج بھی زندہ ضمیر انسان اس کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔
ترکی کے امدادی ادارے "آئی ایچ ایچ” کے چیئرمین محمد یلدرم نے اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ مرمرہ جہاز آج بھی ہمارے امدادی کارکنوں اور رضا کاروں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ دس سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی ایسے لگتا ہے کہ یہ واقعہ ابھی تک زندہ اور تازہ ہے۔
محمد یلدرم کا کہنا تھا کہ قابض صہیونی فوج کےہاتھوں جس نوعیت کی ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا گیا اس کے نفسیاتی ،جسمانی اور ذہنی اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی کے عوام کے لیے یہ ریلیف مشن ایک خوفناک بھوت بن کر رہ گیا۔
محمد یلدرم کا کہنا تھا کہ مرمرہ جہاز پر اسرائیلی فوج کی چڑھائی کے آغاز میں جہاز کے عملے کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ ہی دیر میں اسرائیلی بحریہ کی کئی جنگی کشتیاں مرمرہ کے اطراف میں آپہنچیں اور جہاز کو ہرطرف سے گھیرے میں لے لیاگیا۔
یلدرم کا کہنا تھا کہ مرمرہ جہاز پر سوار تمام افراد نہتے، غیر مسلح اور پرامن تھے۔ ان میں سے کسی کے پاس ایک چاقو تک نہیں تھا۔ ان میں سے کسی کا کوئی ایسا خطرناک ارادہ نہیں تھا اور وہ سب کے ساتھ غزہ کی پٹی کے محصورین کی امداد کے لیے عظیم مشن پر تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم اس واقعے کو کسی صورت میں فراموش نہیں کرسکتے۔ ہمیں سفاک صہیونی جلادوں نے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہم نے اسرائیلیوں کو بتایا کہ ہم غزہ کی پٹی کے محصور عوام کی مدد کے لیے آرہے ہیں اور فضائی ، بحری اور بری ناکہ بندی توڑنا چاہتےہیں۔
امدادی ادارے کے گوروم ریاست کے رکن سلیم اوزطبقجی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دس سال قبل غزہ کی پٹی کے عوام کی مدد کا مقصد رضاکارانہ جذبے کے تحت محصورین کی مدد کرنا تھا مگر ہمیں اسرائیلی فوج کی طرف سے جس نوعیت کی بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اس کی توقع ہرگز نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے محصورین کی مدد ہرزندہ ضمیر انسان کے دل کی آواز تھی اور پوری دنیا ہمارے ساتھ اس مشن میں شامل تھی۔ ہم بھی دنیا کو اس قافلے کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پرناروا پابندیاں عاید کررکھی ہیں۔
اوزطبقجی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کی اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کے نتیجے میں مرمرہ جہاز پرسوار 60 امدادی کارکن زخمی ہوئے۔ ایک پرامن اور امدادی مشن پر آنے والے جہاز کے عملے اور کارکنوں پر اسرائیلی فوج کی یلغار کے بعد اسرائیلی ریاست کے خلاف عالمی فوج داری عدالت میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مرمرہ جہاز پراسرائیلی فوج کے حملے اور اس کےبعد پیدا ہونے والی صورت حال میں فلسطینیوں کی مشکلات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی فوج نے جن کارکنوں کو حراست میں لیا تھا انہیں ترکی کی مداخلت کےبعد ترکی بھیج دیا گیا۔