فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی جانب سے مئی میں اتھارٹی کے "اسرائیل” اور امریکا کے مابین معاہدے کو منسوخ کرنے کا اعلان عملی طور پر کوئی نئی بات نہیں ہے۔ صدر عباس اوسلو معاہدے سمیت دیگر تمام معاہدوں کو اس سے قبل بھی ختم کرنے کا اعلان کرچکے ہیں مگر ان کے بیانات اور عملی اقدامات میں تضاد ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور عالمی برادری کے تعلقات سے متعلق 1993 میں متعدد معاہدوں اور پروٹوکولوں پر دستخط ہوئے تھے۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے "اسرائیل” کو ایک آئینی ریاست کے طورپر تسلیم کیا۔ مگر دوسری طرف اسرائیل نے معاہدوں کی کوئی پاسداری نہیں کی کی۔ اس پر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عالمی فوج داری عدالت میں متعدد بار شکایت کی گئی۔
کچھ دن پہلے بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فلسطینی اتھارٹی سے محمود عباس کے "اسرائیل” کے ساتھ معاہدوں کو توڑنے کے فیصلے کے بارے میں وضاحت اور معلومات طلب کی تھیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ تمام معاہدے توڑنے کا اعلان اس وقت کیا جب اسرائیل نے غرب اردن پر صہیونی ریاست کی خود مختاری قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے عالمی عدالت انصاف کے سوالات کا جواب یہ کہتے ہوئے دیا کہ فلسطین میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قانونی دائرہ اختیار میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ عباس نے اعلان کیا تھا کہ پی ایل او اور ریاست فلسطین اسرائیلی اور امریکی حکومتوں کے ساتھ تمام معاہدوں کی تحلیل کی تیاری کررہی ہے مگر اس سے فلسطینیوں کی حیثیت ختم نہیں ہوگی اور عالمی فوج داری عدالت اپنے پروٹوکول کے مطابق کام جاری رکھ سکے گی۔
ویانا کنونشن کے مطابق معاہدوں کا قانون کسی بھی ملک کو کسی بھی معاہدے کو تحلیل کرنے یا اپنے مفادات کے مطابق انہیں معطل کرنے کا حق دیتا ہے۔
دسمبر 2019 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کی چیف پراسیکیوٹر فتوؤ بینسودا نے کہا تھا کہ اگر عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین ہوجاتا ہے تو وہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کے کمیشن کی مکمل تحقیقات کھولیں گی۔
قانونی پہلو
امریکی انتظامیہ کے "صدی کی ڈیل” کے اعلان اور امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی سے قبل ہی فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ سیاسی تعلقات خراب ہوگئے تھے۔ اسرائیل نے اپنے قول و عمل سے "دو ریاستی حل” کو دفن کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
اسرائیل کے مغربی کنارے پراپنی خود مختاری کے قیام کے منصوبوں کے بعد صدر عباس نے پی ایل او کی قیادت کے اجلاس کے دوران اعلان کیا کہ فلسطینی اتھارٹی "امریکی اور اسرائیلی حکومتوں کے ساتھ تمام معاہدوں اور مفاہمت کی تحلیل کے عمل میں ہے۔ "سلامتی سمیت افہام و تفہیم سے پیدا ہونے والی تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی تیاری کررہی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل” کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں متعدد شکایات جمع کروائی تھیں جن میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ان میں سب سے اہم 2014 میں اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطین میں کیے جانے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ شامل تھا۔
"اسرائیل” نے آباد کاری ، قتل عام اور دیگرسنگین جرائم کے علاوہ ، 2008 ، 2012 اور 2014 میں بار بار جارحیت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔
بین الاقوامی قانون کے ماہر عبد الکریم شبیر نے زور دے کر کہا ہے کہ اوسلو معاہدے کو ترک کرنے کے اتھارٹی کے اعلان سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قانونی دائرہ اختیار پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انہوں نے "مرکزاطلاعات فلسطین” سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اوسلو معاہدے ٹوٹ جانے کی وجہ سے بین الاقوامی فوجداری عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بدلا جائے گا۔ کیونکہ فلسطین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعہ 2012 میں جاری اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت اقوام متحدہ کا ممبرہے۔ اس نے روم معاہدے میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے اور اس نے بہ طور ممبر ریاست تسلیم کر رکھا ہے۔
سیاسی مساعی
فوجداری عدالت میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کی شکایات تل ابیب کے لیے ایک خوفناک مسئلہ ہے جو اس کی بین الاقوامی حیثیت کو متاثر کرنے والے اہم سیاسی جہتوں کا حامل ہے۔ عالمی عدالت کی کسی بھی نوعیت کی تحقیقات اسرائیلی ریاست کے جرائم کو بےنقاب کرنے اور اسرائیلی لیڈر شپ کو کٹہرے میں لانے کا باعث بن سکتی ہے۔
پچھلے سال عالمی فوج داری عدالت کی چیف پراسیکیوٹر "بینسودا” کے اعلان نے "اسرائیل” کو پریشان کردیا تھا جس کے بعد اسرائیل نے یورپی اور امریکی ممالک سے اپنے سیاسی اتحادیوں کو عدالت میں دباؤ ڈالنے کے لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا۔
سنہ 2010ء میں برطانوی پولیس نے اسرائیلی وزیرخارجہ زیپی لیونی کو حراست میں لینے کی کوشش کی تھی۔ ان پر سنہ 2006ء میں لبنان اور 2008ء میں غزہ کی پٹی پر جارحیت مسلط کرنے اور سیاسی اعلانات کے ذریعے جنگی جرائم کے ارتکاب کا اعلان کیا گیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار جارج جقمان کا کہنا ہے کہ لبنان میں 2006 میں ہونے والی جارحیت اور 2008-2012014ء کے دوران غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے بعد "اسرائیل” کے کئی سیاسی اور فوجی لیڈروں کے خلاف قانونی کارروائی کا خدشہ تھا جنہوں نے ان کے خلاف جنگی جرائم کی شکایات درج کیں۔
جاقمان نے کہا کہ ہم نے امریکا متحدہ امریکا اور جرمنی نے عالمی عدالت انصاف پر اسرائیلی جرائم کی تحقیقات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرکے اپنی پوزیشن واضح کردی ہے۔