دوشنبه 24/مارس/2025

شام میں فلسطینیوں کی عید ماضی اور حال کے آئینے میں

جمعرات 28-مئی-2020

شام میں سال ہا سال کی خانہ جنگی نے نہ صرف مقامی آبادی بلکہ شام میں موجود فلسطینی پناہ گزین بھی ہمہ نوع مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ خوشی اور غمی کے موقعے پر فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اوربھی بڑھ جاتی ہیں۔ عید کے مواقع آتے ہیں مگر خوشی دیکھنا فلسطینی پناہ گزینوں کے مقدر میں کم ہی ہوتی ہے۔

شام کے علاقے حماۃ میں قائم پناہ گزین کیمپ میں رہائش پذیر ایک خاتون پناہ گزین ام محمود زیدان روایتی فلسطینی کیک تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

اپنے گھر کے صحن میں ام محمود الصوارنی اپنے بچوں کی ذمہ داریوں میں مصروف ہے جب کہ ساتھ ہی وہ کھجور کا کیک تیار کرنے کے لیے سانچہ تیار کررہی ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ام محمود کا کہنا تھا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے مگر ہم روایتی فلسطینی کیک کی تیاری کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اس کے بغیر عید کا کوئی مزہ نہیں ہے۔

غریب خاندانوں کا حال

عید کیک فلسطینی پناہ گزینوں کا ایک روایتی کیک ہے جو عید کے موقعے پر فلسطینی چاہے وہ اندرون فلسطین ہوں یا بیرون ملک ہوں وہ عید کیک تیار کرتے ہیں۔

عید میدے اور کجھور کے ساتھ دیگر اجزا سے تیا کیاجاتا ہے،اس میں چینی ، کشمش اور دودھ کو بھی شامل کیا جاتا ہےجو اس عید کیک کی تیاری میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔

ام محمود کا کہنا ہے کہ ہمارے مادی اور مالی حالات کافی دگر گوں  ہیں۔ ہم گوشت مہینوں نہیں دیکھ پاتے۔ عید پر گوشت کی قیمت 12 ہزار شامی لیرہ تک پہنچ گئی۔ اگر آپ چار کلو گوشت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس 48 ہزار شامی لیرہ کا ہونا ضروری ہے۔

الحاج خالد بلعاوی المعروف ابو ولید دمشق کے سبینہ کیمپ کے رہائشی ہیں۔ قدس پریس سے بات کرتے ہوئے افسوس ہےکہ ہم گوشت خرید نے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہمارے گھر میں نو افراد ہیں اور ہمیں ایک یا دو کلو گوشت کافی نہیں ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں ابو ولید کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ غزہ سے ہیں۔ غزہ کے باشندے گوشت کو پسند کرتے ہیں۔ غزہ کے لوگ مچھلی کو گھںٹوں کے حساب سے نمک میں ڈال کر رکھتے ہیں۔

عید کےکپڑوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے مالی حالات بہت خراب ہیں۔ ماضی کی عیدوں کی طرح ہماری ہرآنے والی عید مختلف ہوتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری15 سالہ بیٹی مالطو نے کہا کہ مجھے عید پر کپڑے خرید کر دیں۔ عام حالات میں  جن کپڑوں کی قیمت 15 ہزار لیرہ ہوسکتی ہے عید کےایام میں 80 ہزار لیرہ تک پہنچ گئی ہے۔

یوں فلسطینی پناہ گزینوں کو عید کے ایام میں خوشی کے بجائے بہت زیادہ مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کی عید کی خوشیاں پریشانیوں میں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ فلسطینی پناہ گزین نہ تو روایتی طریقے سےپکوان بنا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس اس کا کوئی اور ذریعہ ہے۔

مختصر لنک:

کاپی