اسرائیل کے انتہا پسندوں کے جبرو تشدد سے نہ صرف فلسطینی متاثر ہیں بلکہ خود صہیونی بھی انتہا پسندوں اور مذہبی عناصر کے انتقامی حربوں کا شکار ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ایسے کئی اسرائیلی دانشور موجود ہیں جنہوں نے پابندیوں اور زبان بندی کے لیے دبائو کے باعث اسرائیل سے نقل مکانی میں عافیت سمجھی۔
عبرانی اخبار "ہارٹز” کی رپورٹ میں شامی لیٹمن نامی ایک خاتون مضمون نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنے والی متعدد شخصیات کو ملک کو چھوڑنا پڑا۔ ان میں سے بعض نے سیاسی جماعتیں تشکیل دیں۔ بائیں بازو کی جماعتیں قائم کیں یا این جی اوز تشکیل دیں۔ انسانی حقوق گروپ قائم کیے یا سماجی سرگرمیوں کے لیے کوئی گروپ تشکیل دیا۔ ان سب کو دبائو اور بلیک میلنگ کے خوفناک ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث وہ اپنے سرکاری عہدے اور ملازمتیں تک ترکل کرنے پرمجبور ہوگئے۔ انہیں سیاسی نظریات کی بنیاد پر انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں دبائو ڈالا گیا۔ انہیں طرح طرح سے ستایا اور آزمایا گیا جس کے بعد وہ یہ سوچنے پرمجبور ہوگئے کہ اسرائیل میں اظہار رائے کی آزادی پابندیوں کا شکار ہے۔ وہ بلاخوف کوئی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اسرائیلی سماج میں ان کے لیے زندگی گذارنا مشکل ہوگیا۔
اسرائیل دانشور برسلز میں
عبرانی اخبار کی رپورٹ میں 60 سالہ ایٹن برونچائن پاریسیو کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ وہ اپنی اہلیہ 40 سالہ الیونور میرزا نے اسرائیل میں انسانی حقوق اور سماجی نوعیت کی خدمات انجام دینے کے بعد اسرائیل چھوڑنے میں عافیت سمجھی۔
دونوں میاں بیوی نے "ذاکرات” کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی۔ انہوں نے اس کی ویب سائٹ پر بتایا کہ فلسطینی نکبہ میں یہودیوں کو اپنی حصے کی ذمہ داریوں اور کوتاہیوں کو قبول کرنا چاہیے۔ فلسطینیوں اور یہودیوں کے درمیان دیر پا مصالحت اور منصفانہ امن کی ضرورت ہے اور یہی دونوں قوموں کی بقائے باہمی کا ذریعہ ہے۔
اسرائیل میں کچھ عرصہ سماجی اورانسانی حقوق کے لیے کام کرنے کے بعد پاریسیو اوراس کی بیوی نے آخر کار ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
پاریسیو کا ارجنٹائن میں پیدا ہوئے اور اپنے والدین کے ہمراہ اسرائیل میں آباد کاری کی۔ اس وقت اس کی عمر پندرہ سال تھی۔ اسرائیل میں آنے کے بعد اس کا نام تبدیل کیا اور کچھ عرصہ فوج میں خدمات انجام دیں۔
اپاریسیو کا کہنا تھا کہ ہارٹزاس نے اپنے بیٹے کو اسرائیلی فوج کی لازمین خدمت سے بچا لیا۔
عدم واپسی کے لیے نقل مکانی
رپور کی مصنف کا کہنا ہے کہ اسرائیل سے نقل مکانی کرنےوالے دانشوروں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ان میں بتسلیم، خاموشی توڑیے، خواتین الائنس برائے امن جیسی تنظیموں کے بانی ارکان شامل ہیں۔
اسرائیل کی سابق سوشلسٹ پارٹی جو ایک ریاستی حل کی حامی تھی کے کئی رہ نما بھی دبائو اور بلیک میلنگ کی وجہ سے نقل مکانی پرمجبور ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 54 سالہ نیوف گورڈن بن گوریون یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کےسابق سربراہ ہیں۔ انہوں نے تحریک السلام الآن کےزیراہتمام ہونے والے مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی پاداش میں انہیں ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔