جمعه 15/نوامبر/2024

غرب اردن پر اسرائیلی قبضہ، کیا نکبہ فلسطین کی خطرناک کڑی ہے؟

منگل 19-مئی-2020

مبصرین کا کہنا ہے کہ سنہ 1948ء کو فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی دہشت گرد گینگ نے مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کیے تو لاکھوں فلسطینی اپنے گھر بار چھوڑنےمجبور ہوگئے۔ فلسطینی قوم سنہ 48ء کےاسرائیلی مظالم کو’نکبہ’ یعنی مصیبت کبریٰ کےنام سے جانتے ہیں۔ آج 72 سال کےبعد ایک بار پھر فلسطین پر اسرائیلی ریاست کےقبضے کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔ اسرائیل نہ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے فلسطینی اور عرب علاقوں کو بہ تدریج صہیونی ریاست کا حصہ بنانے کی مہم شروع کی ہے۔ 1948ء کے بعد اب تک 72 برسوں کے دوران شاید یہ انتہائی خطرناک مرحلہ ہے۔ آج کا مرحلہ اس لیے زیادہ خطرناک ہےکہ اس وقت فلسطینی قوم متحد نہیں بلکہ قومی قوتیں الگ الگ راستوں پر چل رہی ہیں۔ فلسطین کی داخلی صورت حال دشمن کے لیے فایدہ ہے جب کہ فلسطینی قوم کے مفادات کو تباہ کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 1948ء کی نکبہ نہ ہوتی تو آج فلسطینی قوم اس مقام پر نہ کھڑی ہوتی۔ گذشتہ چند برسوں کےدوران امریکی انتظامیہ نے فلسطین کے حوالےسے اپنی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے بین الاقوامی قوانین، قراردادوں اور عالمی فیصلوں کو پامال کرنا شروع کیا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی سے فلسطین پر اسرائیلی ریاست کی نئی نکبہ کا نیا موڑ داخل ہوا۔ امریکا نے فلسطینی اراضی پر اسرائیلی قبضے کو وسعت دینے میں اسرائیل کی ہرطرح اور ہرسطح پر مدد کی۔

فلسطینی تجزیہ نگار فراس بو ھلال کا کہنا ہے کہ نکبہ اور اس کے بعد کے واقعات کا آپس کیں تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکبہ فلسطینی قوم کی مشکلات کا نقطہ آغاز ہے اور دیگر تمام واقعات یکے بعد دیگرے اس کے اثرات اور نتائج ہیں۔

ابو ھلال کا کہنا ہے کہ نکبہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرنا یا ہزاروں کو شہید کرنا نہیں بلکہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے اور اس میں تزویراتی معانی پوشیدہ ہیں۔ فلسطینی قوم کے حقوق، اراضی اور اصولی مطالبات کو نظرانداز کرکے ارض فلسطین پر یہودیوں کی حکومت قائم کی گئی۔ دنیا بھرمیں  منتشر یہودیوں کو فلسطین میں لا کرآباد کیا گیا اور فلسطیں ہزاروں سال سے آباد فلسطینیوں کو پوری دنیا میں تتر بتر کردیا۔

انہوں‌نے کہا کہ قضیہ فلسطین اور نکبہ نے کئی خطرناک موڑ تبدیل کیے۔ اس میں نکسہ، القدس کا ہاتھوں سے چھن جانا، غرب ردن پر اسرائیلی دشمن کا قبضہ، فلسطینی قوم کے خلاف اجتماعی قتل عام اور بار بار جنگیں‌مسلط کرنا بھی نکبہ کا حصہ ہے۔

ابو ھلال کا کہنا ہے کہ تزویراتی معنی کے اعتبار سے اوسلو معاہدے کو بھی نکبہ کا ایک موڑ قراردینا چاہیے کیونکہ اوسلو معاہدے میں کشمکش کی حقیقت ایک نئے انداز میں سامنے آئی۔ ایک نہا نہاد فلسطینی اتھارٹی وجود میں آئی جس نے اسرائیل کے وجود نا مسعود کو تسلیم کیا اور دشمن کے ساتھ معاہدے شروع کردیے۔

ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگار نے کہا کہ فلسطینی قوم کو مزیدجرات مندانہ فیصلے اور اقدامات کرنا ہوں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینا ہوگا اور صہیونی دشمن کے ساتھ نام نہاد امن بات چیت کے بجائے مزاحمت کی تلوار تیز کرنا ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے قبضے کےسائے کام کررہی ہے مگر یہ ڈرامہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ ہمیں آزادی کے لیے  قومی سطح پراجتماعی پروگرام تشکیل دینا ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی کے وجود کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی کے تحلیل ہونے کے بعد اگلے روز کیا ہوگا وہ منظر ذہن میں رکھنا چاہیے۔ فلسطینی اتھارٹی کو تحلیل کرنے بعد یہ امید کی جاسکتی ہے کہ فلسطینی قوم کسی اجتماعیت پر متحد ہوسکے۔

اسی سیاق میں تجزیہ نگا احمد سکینہ کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں یہودی بستیوں کو ختم کرنے اور دیوار فاصل کو گرانے کی حمایت سے لے کر اب غرب اردن اور وادی اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کی حمایت کی سنہ 1948ء کے نکبہ کے تسلسل کا حصہ ہے۔
احمد سکینہ نے نکبہ سے متعلق آن لائن کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل موجودہ امریکی انتظامیہ کی موجودگی میں زیادہ تیزی کے ساتھ اور جلد از جلد فلسطین پراپنا تسلط جمانے کی کوشش میں ہے تاکہ 18 ماہ کے بعد اسرائیل کی نئی حکومت اور امریکا میں رواں سال ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ فلسطینی علاقوں پر صہیونی تسلط مضبوط بنایا جا سکے۔

 

مختصر لنک:

کاپی