اسرائیل کی مرکزی عدالت نے پانچ سال قبل غرب اردن میں ایک فلسطینی خاندان کو زندہ جلا کر شہید کرنے میںملوث صہیونی دہشت گرد پر قتل کے تین جرائم کے تحت فرد جرم عاید کی ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2015ء کو مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں دوما کے مقام پر یہودی دہشت گردوںنے دوابشہ نامی فلسطینی خاندان کے گھر میں گھس کر اسے آگ لگا کر شہید کردیا تھا۔
اس مجرمانہ دہشت گردی کے اندوہنا واقعے میں دوابشہ خاندان کے سربراہ، اس کی اہلیہ ریحام اور ایک ڈیڑھ سال کا بچہ جلد کر شہید ہوگئے تھے جب کہ ایک چار سالہ بچہ جھلس کر بری طرح زخمی ہوگیا تھا۔
اسرائیل کی مرکزی عدالت نےفلسطینی خاندان کو زندہ جلا کر شہید کرنے میں ملوث مرکزی ملزم بن اولیئل پر فرد جرم عاید کی۔ اس موقعے پر ملزم کی طرف سے اعتراف جرم پرمبنی بیان کو بھی کیس کا حصہ بنایا گیا۔ عدالت کی خاتون جج روٹ لوریکھ نے کہا کہ ملزم کےتیسرے اعترافی بیان کو اس کے تمام پہلوئوں کے ساتھ قبول کرلیا گیا ہے۔
بن اولیئیل پر دوابشہ خاندان کے تین افراد کوایک یہودی آباد کار ملاکھی روزنگلیڈ کے قتل کے انتقام میں جان سے مارنے اور پورے خاندان کو زندہ جلا کر قتل کرنے کا قصور وار قرار دیا گیا۔
عدالت کی طرف سے جاری کردہ فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ بن اولیئیل نے ایک کم عمر لڑکے کی مدد سے دوما میں دوابشہ خاندان کی ایک ماہ تک ریکی کی تاکہ انہیں زندہ جلا کرشہید کرسکے۔ اس نے مجدل گائوں میں بھی فلسطینیوں کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔
فرد جرم میں کہا گیا ہے کہ ملزم بن اولیئیل 30 جولائی 2015ءکو اپنے گھر سے کم عمر معاونت کار سے ملنے کے لیے آیا۔ ملاقات میں دونوں نے دوابشہ خاندان کو زندہ جلا کر مارنے کا سفاکانہ منصوبہ تیار کیا۔
یہودی دہشت گرد نے پہلے مامون دوابشہ کے گھر میں ایک پٹرول بم پھینکا۔ اس سے مکان میں آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں دو کم سن بچوں سمیت چار افراد جھلس گئے۔ ان میں سے میاں بیوی اور ایک شیرخوار جل کر شہید ہوگئے جبکہ چار سالہ احمد بری طرح زخمی ہوگیا تھا۔
اللد کی عدالت نے جون 2018ء کو بن اولیئیل کے معاونت کار کو کم عمر قرار دے کر بری کردیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس سے غیرقانونی طریقے، تشدد اور دبائو کے ذریعے اعتراف جرم کرایا گیا ہے۔