جمعه 15/نوامبر/2024

غرب اردن کا اسرائیل سے الحاق امن منصوبوں کو دفن کردے گا:وصفی قبہا

اتوار 17-مئی-2020

فلسطین کے سابق وزیر برائے امور اسیران  وصفی قبہا نے کہا ہے کہ اس غرب اردن، وادی اردن اور بحر مردار کے علاقوں پر اسرائیلی ریاست کی خود مختاری صہیونی ریاست کے ساتھ امن مذاکرات کا ڈھونگ
رچانے والوں کے لیے واضح اعلان ہے کہ ان کی تمام کوششیں بے کار ثابت ہوئی ہیں۔ فلسطینی علاقوں کا اسرائیل سے الحاق نام نہاد امن منصوبے کو قبر میں اتارنے کے مترادف سمجھا جائے گا۔

مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں وصفی قبہا نے کہا کہ غرب اردن پر اسرائیلی ریاس کا قبضہ مسجد ابراہیمی کو اپنی تحویل میں لینے اور مسلمانوں کو اس مقدس مقام سے محروم کرنے کی گھنائونی سازش ہے۔

ایک سوال کے جواب  میں انہوں نے کہا کہ وہ تمام عناصر اور لیڈر جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور بات چیت پر زور دیتے رہے ہیں۔ آج فلسطینی قوم کو بتائیں کہ ان کے مذاکرات کا کیا فایدہ ہوا ہے۔ اسرائیلی دشمن نے ماضی میں فلسطینی قوم کو دھوکہ دیا اور آئندہ بھی وہ اسی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ انہوں‌ نے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کی توسیع کے عمل میں امریکا بھی برابرکا شریک مجرم ہے۔

سابق فلسطینی وزیر کا کہنا تھاکہ فلسطینی اتھارٹی اور  صدر محمود عباس اسرائیل کے ساتھ تو مذاکرات کے لیے تیار ہیں مگر وہ فلسطینی دھڑوں میں مصالحت کے لیے سنجیدہ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا ، "اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دھڑوں کو صرف صدر سے ملنے اور ان کی باتوں کو سننے کے لئے مدعو کیا جائے۔ بلکہ اسے مغربی کنارے اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے شدید حملے کا جواب دینے کے لئے مناسب طور پر تیار ہونا چاہئے تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اتھارٹی نے کرونا وبائی امراض کے سائے میں گرفتاریوں کو روکنے اور فلاحی کاموں کے تعاقب کے لیے سرگرم ہے اور اس حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کا کردار انتہائی منفی ہے۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ وقتا فوقتا اتھارٹی اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے اسرائیل سے مذاکرات کی باتیں کرتی ہے مگر اصل مفادا قومی مصالحت میں پنہاں ہے۔

انہوں نے فلسطینی بنکوں کی جانب سے اسیران اور شہداء کے اہل خانہ کے بنک اکائونٹس بند کرنے کے اقدام کو اسرائیل کی خوشنودی کے حصول اور دشمن کے دبائو کا شکار ہونے کے مترادف قرار دیا۔
ایک سوال کے جواب میں وصفی قبہا نے کہا کہ فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم کے بعد فلسطینی عوام میں مزاحمت کی لہر مزید تیز ہوئی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی