مقبوضہ بیت المقدس کے دیہاتوں میں ایک بیت اکسا جس کا پرانا نام ‘ مغربی بیت الاقصیٰ’ تھا فلسطین میں صہیونی ریاست کے مظالم کا 72 سال سے عینی شاہد ہے۔
ان جرائم جن میں فلسطینی آبادی کو اجتماع اور مسلسل ھجرت پر مجبور کرنا بھی شامل ہے۔ بیت اکسا کے باشندے بار ہا تنگ آ کر وہاں سے نکلے مگر پھر وہیں آباد ہوتے رہے۔ صہیونی ریاست ان کی زمین ان سے غصب کرنے سے باز نہیں آئی اور وہ اپنی مٹی سے محبت کی پاداش میں صہیونی ریاست کا ہرظلم برداشت کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل اسرائیلی حکومت نے بیت اکسا کے 14،000 کنال قیتمی اراضی میں سے 12،000 کنال پر قبضہ کرلیا۔ دیوار فاصل تعمیر کر کے ان کی ناکہ بندی کی گئی، یہودی دہشت گردوں کے ذریعے فلسطینی آبادی کی جان ومال پر منظم طریقے سے حملے کرائے گئے۔ اس طرح بیت اکسا کی 1700 کی آبادی کم ہو کر650 رہ گئے جب کہ اس قصبے میں 35 ہزار فلسطینی مہاجرین آباد ہیں۔
سنہ 1948ء کی نکبہ
قدیم رومن کھنڈرات سے مالا مال اس گاؤں کو 1948 میں صیہونی جنگجو دہشت گردوں بار بار اپنی تخریب کار نشانہ بنایا۔ مکانات مسمارکیے گئے۔ فلسطینیوں کی جانوں پرحملے کیے گئے۔ ان کی قیمتی زمینوں پرقبضہ کیا گیا اور املاک لوٹیں گئیں۔ حتی کہ قصبے کی قدیم مسجد بھی بارود سے اڑا دی گئی۔
بیت اکسا کے ایک مقامی شہری محمد حمدان نے بتایا کہ سنہ 1949ء میں طے پائے جنگ بندی معاہدے کے تحت کچھ فلسطینی واپس آئےگائوں کی بیشتر آبادی اردن نقل مکانی کرچکی تھی جن کو واپس نہیں آنے دیا گیا۔
سنہ 1967ء کا قبضہ
قابض فوج کے گروہوں نے مغربی کنارے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد 1967 میں بیت اکسا اسرائیلی قبضے میں آنے والا پہلا گاؤں تھا۔
جلد ہی قابض صہیونی ریاست نے بیت اکسا گاؤں کی زمینیں ضبط کرلیں تاکہ بستیوں کا ایک گروپ قائم کیا جاسکے۔ یہاں کئی بستیاں تعمیر کی گئیں۔ شمال مغرب میں "راموٹ ایلون” ، جنوب مغرب میں "میوی سیرت” ، "نیٹسفی طاؤح” "ہار سموئیل” اور عترت ہیں۔ القدس کو تل ابیب سے ملانے والی ریلوے کی تعمیر کے لیے مزید زمینیں ضبط کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
نہ صرف قابض فوج نے بیت اکسا کی قیمتی زمین ضبط کی بلکہ گاؤں کے واحد داخلی راستے پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور القدس کو ملانے والی سڑکیں بند کرنے کے لیے 2008ء میں نئی پابندیاں عاید کردیں۔ یہ عارضی رکاوٹیں سنہ 2010ء میں مستقل کردی گئیں۔
بیت اکسا کے ایک مقامی فلسطینی باشندے ابراہیم الکسوانی کا کہنا ہے کہ قصبے میں پولیس چوکی کی تعمیر کے بعد سے اسرائیلی فوج نے بیت اکسا کا محاصرہ بڑھا دیا ہے۔ جہاں خصوصی اجازت نامے یا بلدیہ کے ممبر کی اجازت کے بغیر گائوں سے باہر سے آنے والے کسی بھی فلسطینی کا وہاں داخلہ منع ہے۔
الکسوانی نے بتایا کہ اسرائیلی حکام نے بیت اکسا کے داخلی راستے کو مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ یہ راستہ اسے القدس سے ملاقات ہے جسے سنہ 1928 سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بیت اکسا اور بیت المقدس میں بسوں اور ٹیکسیوں کی پبلک ٹرانسپورٹ بند کردی ہے۔
ابراہیم الکسوانی نے مزید کہا اسرائیلی ریاست کے ان مجرمانہ اقدامات کے 800 شہری قصبہ چھوڑںے پرمجبور ہوچکے ہیں۔
بیت اکسا میونسپلٹی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی پابندیوں کے باعث یہ گائوں کھلی جیل بن چکا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی مرضی اور آزادی کے ساتھ اس میں آمدروفت کی اجازت نہیں۔