اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت کی حلف برداری وزراء کے ناموں پر اختلاف کی وجہ سے اتوار تک ملتوی کردی گئی ہے۔
وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سیاسی حریف سابق آرمی چیف بینی گینز کے زیر قیادت اسرائیل کی نئی مخلوط قومی کابینہ نے جمعرات کو حلف اٹھانا تھا لیکن عین وقت پر وزراء کے ناموں پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ حلف برداری کی تقریب ملتوی کردی گئی ہے۔
اسرائیل میں گذشتہ ایک سال کے دوران میں سیاسی رسا کشی اور تین غیر فیصلہ کن پارلیمانی انتخابات کے بعد وزیراعظم بنجم نیتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی اور اس کی سیاسی حرف بلیو اور وائٹ کے درمیان شراکت اقتدار کا ایک فارمولا طے پایا ہے۔اس کے تحت پہلے 18 ماہ بنیامین نیتن یاہو وزیراعظم رہیں گے اور اس کے بعد بینی گینز وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گے۔
دونوں جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بینی گینز نے حکومت کی حلف برداری میں تاخیر سے اتفاق کیا ہے تاکہ نیتن یاہو اپنی جماعت کے ارکان کو کابینہ کے عہدے تفویض کرسکیں۔
نئی کابینہ میں اسرائیل کے سابق آرمی چیف گابی اشکنازی کو وزیرخارجہ نامزد کیا گیا تھا اوران کی جماعت کے سربراہ بینی گینز وزارت دفاع کا منصب اپنے پاس رکھیں گے۔دوسری اہم وزارتیں لیکوڈ پارٹی کے حصے میں آئی ہیں۔
قومی اتحاد کی کابینہ کی تشکیل کے لیے طے شدہ سمجھوتے کے تحت نیتن یاہو کے خلاف بدعنوانیوں کے مقدمے کی سماعت جاری رہے گی۔ان کے خلاف اس مقدمے کی 24 مئی سے سماعت شروع ہورہی ہے۔وہ اسرائیل کے پہلے برسراقتدار وزیراعظم ہوں گے جس کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔
قومی اتحاد کی حکومت کے لیے طے شدہ معاہدے میں امریکا کے کردار کا بھی ذکر موجود ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ اس کی مشاورت ہی سے مستقبل میں (غربِ اردن سے متعلق) کوئی اقدام کیا جائے گا۔
نیتن یاہو نے غربِ اردن میں واقع یہودی آبادکاروں کی بستیوں اور وادیِ اردن کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے لیے یکم جولائی سے کابینہ میں بحث ومباحثہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔تاہم انھوں نے فلسطینی سرزمین کو ہتھیانے کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کوئی نظام الاوقات مقرر نہیں کیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال کے اوائل میں ’صدی کی ڈیل‘ کے نام سے اپنا نام نہاد مشرقِ اوسط امن منصوبہ پیش کیا تھا۔اس میں اسرائیل کو غربِ اردن میں قائم یہودی بستیوں اور دوسرے تزویراتی علاقوں کو ضم کرنے کے لیے سبز جھنڈی دے دی گئی تھی۔
فلسطینیوں کے علاوہ یورپی یونین نے امریکی صدر کے امن منصوبے پر کڑی تنقید کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس سے مشرقِ اوسط کے دیرینہ تنازع کے دو ریاستی حل کا دروازہ ہمیشہ کے لیے موثر طور پر بند ہوجائے گا۔