یکشنبه 17/نوامبر/2024

الخلیل میں یہودی کالونی کے منصوبے کے در پردہ اسرائیلی عزائم

بدھ 13-مئی-2020

گذشتہ کچھ دنوں سے اسرائیلی حکومت اور انتہا پسند یہودی مذہبی گروپ مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں یک نئی یہودی کالونی کے منصوبےکے لیے پروپیگنڈہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

الخلیل کے پرانے شہر کے الجملہ بازار میں ایک بڑا بینرآویزاں ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ‘ہم جلد ہی اس بازار میں ایک نئی یہودی کالونی قائم کریں گے’۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ سنہ 1994ء میں مسجد ابراہیمی میں یہودی دہشت گرد کے ہاتھوں نمازیوں کے قتل عام کے واقعے کے بعد الجملہ بازار بند ہے اور یہودی اس بازار اور اس سے ملحقہ مقامات کو مسجد ابراہیمی پر اپنا تسلط جمانے کے لیے ایک تزویراتی مقام کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

چند ہفتے پیشتر اسرائیلی مشیر قانون افیحائی منڈبلیٹ نے مسجد ابراہیمی سے ملحقہ اراضی کو یہودیوں کے لیے مقاصد کے لیے استعمال میں لانے کی اجازت دی۔ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پرانے الخلیل شہر کی اراضی پرقبضے کے ساتھ ساتھ وہاں پر ایک یہودی معبد کی تعمیر اور ترقیاتی منصوبوں کی آڑ میں مسجد ابراہیمی پرقبضہ جمانے کی راہ ہموار کرنا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر خلیل تفکجی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل مختلف حیلوں بہانوں سے مسجد ابراہیمی پرمکمل تسلط جمانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔ اسرائیل کا مسجد ابراہیمی پر دست درازی کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پائے اوسلو معاہدے کے تحت مسجد ابراہیمی کے انتظامی امور کے تمام اختیارات الخلیل شہر کی بلدیہ کو دیئے گئے تھے۔ تاس تاریخی مسجد کے ساتھ صہیونی ریاست کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

یکم دسمبر 2019ء کو اسرائیلی وزیر دفاع الجملہ بازار سے متصل ایک یہودی کالونی کے قیام کی باقاعدہ منظوری دی۔

منصوبے کے تحت یہودیوں کو الخلیل شہر کی پرانی اور منہدم ہونے والی عمارتوں کو دوبارہ تعمیر کرنے اورانہیں تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جس مزعومہ یہودی کالونی کی بات کی جا رہی ہے وہ ایک طرف مسجد ابراہیمی اور دوسری طرف الخلیل میں قائم ‘ابرہام افینو’ یہودی کالونی کے درمیان قائم کی جائے گی۔

اس منصوبے کے تحت الخلیل شہر میں فلسطینیوں دکانیں اور دیگر تجارتی مراکز مسمار کرکے ان کی جگہ نئی عمارتیں کھڑی کرنا ہے۔

الخلیل شہر میں واقع مسجد ابراہیمی میں یہودی دہشت گرد کے ہاتھوں قتل عام کے سنہ 1994ء کو پیش آنے والے واقعے کے بعد اسرائیلی حکومت نے الخلیل شہر میں فلسطینیوں کے کاروباری مراکز بند کردیے تھے۔

یاد رہے کہ 1994ء میں ماہ صیام کی ایک نماز فجر میں یہودی دہشت گرد باروخ گولڈ چائن نے مسجد میں گھس کر 29 نمازیوں کو شہید اور 150 کو زخمی کردیا تھا۔

فلسطینی محکمہ اوقاف کےسیکرٹری حسام ابو الرب نے ایک بیان میں کہا کہ الخلیل میں یہودی کالونی کا منصوبہ فلسطینیوں کو مسجد ابراہیمی اور کئی دوسری تاریخی املاک سے محروم کردےگا۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسجد ابراہیمی خالصتا مسلمانوں کا مقدس مذہبی مقام ہے اور اس کے اطراف میں یہودیوں کی کسی قسم کی سرگرمی کی اجازت دینا فلسطینی قوم کو الخلیل اور اس کی مقدسات سے محروم کرنا ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل ریاست عالمی برادری کی کرونا کی وبا میں الجھنے سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور فلسطینی علاقوں میں اپنے مذموم یہودی توسیع پسندانہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے سرگرم ہے۔

حسام عبدالرب کا کہنا تھا کہ فلسطینی محکمہ اوقاف اسرائیل کی توسیع پسندی کے اقدامات اور الخلیل میں نئے آباد کاری کے منصوبوں پر خاموش تماشائی نہیں رہے گی۔

مختصر لنک:

کاپی