تین مئی کو ہرسال پوری دنیا میں صحافیوں اور صحافت کا عالم دن منایا جاتا ہے۔ رواں سال یہ دن ماضی کی طرح ایک ایسے وقت آیا ہے جب فلسطینی صحافیوں کو اسرائیلی ریاست کے منظم انتقام کا مسلسل سامنا ہے۔
عالمی یوم صحافت کے موقع پربھی اسرائیلی جیلوں میں 12 فلسطینی قید ہیں۔ فلسطین میں آزادی صحافت کا جسد زخموں سے تار تار ہے اور فلسطینی قلم کاروں کو ماضی کی طرح منظم ریاستی دہشت گردی اور حملوں کا سامنا ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی صحافیوں میں سب سے پرانے صحافی القدس سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمود عیسیٰ سنہ 1993ء سے اسرائیلی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں اور انہیں اسرائیل کی ایک نام نہاد فوجی عدالت کی طرف سے تین بار عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اسیر11 صحافیوں میں نابلس کے باسم خندقجی کو بھی تین بار عمر قید کی سزا کا سامنا ہے اور وہ 16 سال جیل میں گذار چکے ہیں۔ رام اللہ کے احمد حسن الصیفی 11 سال سے پابند سلاسل ہیں اور مزید چھ سال انہیں قید میں رکھا جائے گا۔ غرب اردن کے شمالی شہرنابلس کے صحافی منذر مفلح 17 سال سے پابند سلاسل ہیں اور انہیں عمر قید اور 30 سال اضافی قید کی سزا کا سامنا ہے۔
اسی طرح اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی صحافیوں میں رام اللہ کے احم العرابید بھی شامل ہیں۔ العرابید کو پانچ سال قید کی سزا کا سامنا ہے جس میں سے وہ نصف سزا پوری کرچکے ہیں۔ غرب اردن کے علاقے دورا کے عامر ابو ھلیل سنہ 2019ء سے انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل ہیں۔
سامح الطیطی 2019ء سے قید وبند میں ہیں۔ یطا کے صالح العمور بھی گذشتہ برس قید کیے گئے تھے۔ نابلس کے مصطفیٰ السخل کو بھی گذشتہ برس قید کیا گیا۔ جنین کے یزن جعفر ابو صلاح رواں سال سے انتظامی قید میں ہیں۔
کلب برائے اسیران کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں قید صحافیوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ البیرہ سے تعلق رکھنے والی بشریٰ الطویل اور میس ابو غوش شامل ہیں۔ بشریٰ الطویل 2019ء سے انتظامی قید کے تحت پابند سلاسل ہیں۔ جب کہ میس ابو غوش کو حال ہی میں اسرائیلی عدالت نے 16 ماہ قید اور 2000 شیکل جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔
فلسطینی انسانی حقوق کے کارکن محمد کمنجی نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کوبتایا کہ اسرائیلی ریاست فلسطینی صحافیوں کو دبائو میں لانے کے لیے طاقت کے استعمال سمیت طرح طرح کے مکروہ ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔ صحافیوں کو ان کی پیشہ وارنہ ذمہ داریوں کی انجام دہی سے روکنے لیے ان پر براہ راست گولیاں تک چلائی جاتی ہیں۔ کئی صحافی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہوچکے ہیں۔
کمنجی کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر سرگرم کارکنوں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بات کرنے کو اسرائیل کے خلاف نفرت پھیلانے کے مترادف قرار دے کر صحافیوں کو طرح طرح کی پابندیوں اور انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔