چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیل ۔ عرب دوستی فلم ‘ام ھارون’ کے کچھ مکالمے!

منگل 28-اپریل-2020

سعودی عرب کے ‘ایم بی سی’ ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر نشرہونے والا اسرائیل سے دوستی کے تناظرصہیونی ریاست سے تعلقات استوار کرنے کے پس منظر میں نشر ہونے والا رمضان ڈرامہ’ام ھارون’ اس وقت عرب دنیا میں بڑے پیمانے پر زیربحث ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عرب ممالک کے عوام کی طرف سے اس نام نہاد ڈارمہ سیریل کو اس کی پہلی اقساط کے نشر ہونے کےساتھ ہی مسترد کردیا ہے۔ اس ڈرامے میں حقیقت کو فراموش کرکےصہیونی ریاست کی مظلومیت ظاہر کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈرامے میں ارض فلسطین میں مُملکت فلسطین کی صریح نفی کی گئی ہے اور اسرائیل کے وجود کو آئینی، قانونی اور مسلمہ قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس ڈرامے جس کا نام ‘ام ھارون’ رکھا گیا ہے میں خلیجی ملکوں اور عرب ممالک میں یہودیوں کو مظلومیت کی مثال کے طورپر پیش کیا گیا ہے۔ کویت اور دوسرے خلیجی عرب ملکوں میں یہودیوں کے تاریخی وجود کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس میں صہیونی ریاست کے مکروہ چہر کوخوشما بناکر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ڈارمہ سعودی ٹی وی پر’پروڈکشن 7′ سے نشر کیا جا رہا ہے۔ ٹی وی کا پورا مواد صہیونی ریاست سے دوستی کی ترویج پرمشتمل ہے۔

ڈرامہ سیریز میں دو اداکاروں ناصر القصبی اور راشد الشمرانی کو فلسطینیوں کے بارے میں بات کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ مکالمے میں ناصر القصبی اسرائیلیوں کے ساتھ تعلقات کےقیام پر حیرت کا اظہار کرتا ہے جب کہ الشمرانی کہتا ہے کہ دشمن وہ ہوتا ہے جو آپ کے تعاون اور مشکل میں آپ کا اس کے ساتھ کھڑا ہونے کی قدرنہیں کرتا۔  دشمن وہ ہوتا ہے جو دن رات آپ کو اسرائیلیوں سے زیادہ گالیاں دیتا ہے۔

الشمرانی نے مزید کہا کہ ہم نے آج تک فلسطینیوں کے لیے قربانیاں دیں، فلسطین کے لیے ہم نے جنگیں لڑیں اور فلسطین کے لیے ہم نے اپنا تیل روکا۔ جب فلسطینیوں کی حکومت بنی تو ہم نے اس کے اخراجات پورے کیے، اس کےملازموں کو تنخواہیں دیں۔ ہم اپنے مال کا حق رکھتے ہیں۔ یہ کیسے دوست ہیں جو سعودی عرب پر تنقید کرنے اور اسے برا بھلا کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

اس مکالمے کے جواب میں قصبی کہتا ہے کہ ‘ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ فلسطینی بھی تو آخر سنہ 1948ء میں اپنے ملک سے جبرا نکالے گئے۔ انہیں اجتماعی قتل عام کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے مقابلے میں کچھ لوگوں نے یہودیوں کو اپنی زمینی فروخت کیں۔ مگر یہ فلسطینی ہی ہیں جو تحریک انتفاضہ کے دوران نہتے ہونے کے باوجود اسرائیلی ٹینکوں سے لڑ جاتے تھے۔ کچھ فلسطینیوں نے دیوار فاصل کے لیے فنڈ  فراہم کیے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح انسان ہی ہیں۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی مگر یہ اسرائیل ہے جو فلسطینیوں اور عربوں کے درمیان نفرت اور عداوت کے بیج بو رہا ہے۔

اس پر الشمرانی نے کہا کہ ‘یعنی آپ فلسطینیوں کےساتھ کھڑا ہونا چاہتے ہیں۔ یہ وہ فلسطینی ہیں جنہوں نے ہمارے اشراف پرلعن طعن کی’ اس پر القصبی نے کہا کہ ہم حق، اصول اور ضمیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔

یہ مکالمہ مزید بھی جاری رہے گا کیونکہ آنے والے دنوں میں اس سازشی ڈرامہ سیریز کے مزید قسطیں بھی نشر کی جائیں گی مگر سوشل میڈیا پر الشمرانی کی گفتگو کو جھوٹ، اسرائیل سے دوستی کی دعوت اورفلسطینی قوم اور اس کے حقوق کو دانستہ طور نظرانداز کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ الشمرانی جیسے لوگ سائبر مکھیاں ہیں جو صہیونی ریاست کا دفاع اور فلسطینیوں کے حقوق کو دانستہ نظرانداز کرتی ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی