سعودی عرب کے ‘ایم بی سی’ ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر کویتی فن کاروں کی تیار کردہ ایک ڈارمہ سیریز’ام ھارون’ یکم رمضان سے نشر کیا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے کے حوالے سے پہلے بھی خبریں اور رد عمل سامنے آ چکا ہے مگر اس کی نشریات روکنےکے مطالبات نظرانداز کیے جانے کے بعد اب سوشل میڈیا پر اس کے خلاف آن لائن انتفاضہ شروع ہوچکی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق’ام ھارون’ نامی یہ فلم خلیجی عرب ممالک میں یہودیوں کے پس منظر میں ہونے کے ساتھ ساتھ ارض فلسطین میں نام نہاد اسرائیلی ریاست کی ترویج کرتی ہے۔
اس ڈرامہ سیریز کاآغاز ہی عبرانی کے الفاظ میں ہوتا ہے۔ اس میں ایک عرب یہودی لڑکی کا قصہ بیان کیا گیا ہے جس کے خاندان کے مسلمانوں اور عربوں کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔
ماہرین اور فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ‘ام ھارون’ میں کویت میں یہودیوں کے وجود کی ترویج کی گئی ہے۔ اس میں کئی تاریخی حقائق کو دانستہ طورپر مسخ کیا گیا اور ڈارمے کی آڑ میں جمہور عرب عوام بالخصوص خلیجی عوام کےکے ذہنوں اور افکار پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس نام ڈرامہ سریز کا آغاز عبرانی زبان میں ہوتا ہے۔ اس کی اگلی قسطوں میں فلسطینی سرزمین پر مملکت فلسیطن کے وجود، تاریخ اور جغرافیے تک کی نفی کی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر اس فلمی سیریز کے خلاف تحریک انتفاضہ چل پڑی ہے۔ نہ صرف فلسطین بلکہ عرب ممالک ، مسلمان ریاستوں اور دیگر ممالک کے زندہ ضمیر لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
سعودی عرب کے ‘ایم بی سی’ ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر نشر کی جانے والی’ام ھارون’ سیریز میں کہا گیا ہے کہ برطانوی استبداد کے بعد اس اس زمین پر اسرائیلی ریاست قائم کی گئی۔ یہ ریاست یہودیوں کے لیے مختص ہے۔ نام نہاد کویتی اور عرب فلم سز اس حقیقت کو دانستہ طورپر فراموش کرگئے جس عرب سرزمین پر برطانوی جبرو استبداد کی حکومت رہی وہ ارض فلسطین کہلاتی ہے مگر صہیونی دشمن کے ساتھ دوستی کے لیے غلطاں وپیچا عرب حکمران ایک تاریخی زمینی حقیقت کو بھول گئے۔
ڈارمہ سیریز’ام ھارون’ ماہ صیام میں سعودی ٹی وی چینل پر نشر کیا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے میں کویت میں سنہ 1940ء کے عشرے میں کویت میں عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلقات اور میل جول پرروشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں یہودیوں اور مسلمانوں کےدرمیان تعلقات کی بات کی گئی ہے مگر اسی عرصے میں فلسطینی قوم کے خلاف یہودیوں کی دہشت گردی، نسل پرستی، ظلم، نا انصافی، النکبہ جیسی کیفیات اپنے عروج پرہونے کے باوجود کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
دوسرے الفاظ میں اس فلم میں فلسطینی سرزمین پر صرف یہودیوں کے قومی ملک اسرائیل کی لابنگ کی گئی ہے اور فلسطینیوں کے حوالےسے کوئی بات نہیں کی گئی۔ گویا فلسطینی اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتے۔
اسرائیلی فوج کے ترجمان افیخائی ادرعی نے اس ڈارمہ سیریز پر تبصرہ کرتے ہوئے اس ڈرامے کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرامہ سیریز ام ھارون کی ہیروئن فہد نامی ایک لڑکی ہے جوسازشی ذہن رکھنےوالوں کی طرف سے منظم نسل پرستانہ ذہن رکھنے کے الزام کا سامنا کررہی تھی۔
ایک خاتون سماجی کارکن نے لکھا کہ یہودیوں کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے والے خود مسلمان ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور فلسطینیوں کے خلاف صہیونیوں اور یہودیوں کے افکار کی ترویج اور ان کے نظریات کی مارکیٹنگ کررہے ہیں۔ اللہ کی پناہ ایسے مسلمانوں سے جو حق بات چھپاتے اور صرف اپنے اقتدار کے دوام کے لیے ظالم کے ظلم پر رپدہ ڈالتے ہیں۔