اس بار ماہ صیام ایسے حالات میں اہل فلسطین پرسایہ فگن ہو رہا ہے کہ کرونا کی جان لیوا وبا نے پورا نظام زندگی درہم برہم کررکھا ہے۔ مسجدیں ویران ہیں کہ ان میں رکوع وسجود کرنے والے اہل ایمان وبا کی وجہ سے وہاں نہیں پہنچ پاتے۔ بازاروں، شہروں اور آبادیوں میں ہرطرف ویرانی اور ہو کاعالم ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس جو ماہ صیام کی آمد سے قبل رمضان سرگرمیوں اور تیاریوں کی وجہ سے ہر عام وخاص کی توجہ کا مرکز بن جاتا تھا مگر اب ویران ہے۔ اس کی گلیاں ، بازار، دکانیں، کالونیاں، مساجد اور اس میں موجود مسلمانوں کا قبلہ اول اس بار نمازیوں اور روزہ داروں سے محروم رہے گا۔ اہل فلسطین کے دل اور روح اگرچہ قبلہ اول کے ساتھ وابستہ ہیں مگر وہ جسمانی طورپر وہاں نہیں جا سکتے۔ چنانچہ کرونا کی وبا نے اہالیان القدس کی رمضان کی تمام خوشیاں ان سے چھین لی ہیں۔
قبلہ اول میں نماز کا اشتیاق
ماہ صیام کے موقعے پر القدس کے فلسطینی قریبی مساجد کو چھوڑ کر زیادہ فاصلہ طے کرکے مسجد اقصیٰ میں نماز عشاء اور تراویح میں شرکت کے لیے جاتے تھے مگراس بار اہل ایمان موجودہ وبائی حالات کی وجہ سے محروم ہیں۔
مسجد اقصیٰ کے ڈائریکٹر الشیخ عمر الکسوانی کہتے ہیں کہ میں گذشتہ رات کو ہم نے مسجد اقصیٰ میں صرف 15 نمازیوں کے ساتھ عشاء اور تراویح کی نماز ادا کی۔ حالانکہ اسرائیلی پابندیوں کے باوجود فلسطینیوں کی بڑی تعداد قبلہ اول میں تراویح کی ادائی کے لیے آتی رہی ہے اور مسجد کے تمام ہال اور اس کی گیلریاں نمازیوں سے بھرجاتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے احتیاطی تدابیر کے تحت تراویح کی نماز کو بھی مختصر کردیا گیا ہے۔ عام حالات میں مسجد اقصیٰ میں تراویح کی 20 رکعتیں ادا کی جاتی تھیں مگر اس بار 8 رکعات ادا کی جاتی ہیں۔ پورا قرآن سنانے کے بجائے مختصر سورتوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کی ایک مستقل نمازی القدس کی خاتون ھنادی حلوانی کا کہنا ہے کہ ماہ صیام میں مسجد اقصیٰ کی بندش بہت تکلیف دہ ہے مگر ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ ہمیں اہالیان القدس کی جانوں کا تحظ کرنا ہے۔
حلوانی نے کہا کہ اس بار ہم رمضان کی خوشیوں سے محروم ہیں۔ التبہ ہم نے اس بار اپنے گھروں کو مسجدیں بنایا ہے۔ ہم گھروں میں تلاوت قرآن کرتے۔ ہم گھروں میں قید ہیں مگر الاقصٰی ہمارے دلوں میں ہے۔
حلوانی کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت کرونا کی وجہ سے پوری دنیا جس مصیبت کا سامنا کررہی ہے وہ پوری انسانیت کے لیے ایک عبرت ہے۔ سفر پرپابندی ہے۔ لوگوں گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ اہالیان القدس تو اسرائیلی ریاست کی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا کررہے ہیں۔
رمضان کی خوشیاں اور زینت ماند پڑ گئی
بیت المقدس کی تاریخی دیواروں سے متصل الصوانہ کالونی میں رمضان کی رونقیں گھروں کے اندر تک محدود ہوگئی ہیں۔ ورنہ ماضی میں لوگ ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی گلیاں بازار بھی سجا لیتے تھے۔ کرونا کی وجہ سے القدس کے مسلمانوں کی خوشیاں چھن گئی ہیں۔
اسی طرح باب حطہ کو رمضان المبارک کی زیب وزینت کے ساتھ خاص تعلق رہا ہے اور روز دار اس مقام کو خاص طورپر سجاتے تھے مگراب کی بار یہ جگہ بھی ویران ہے۔
القدس کی یوتھ کے نمائندہ عمارالسدرنے کہا کہ ہم پرانے بیت المقدس اور اس کی کالونیوں کو کرونا کی وجہ سے سنوار نہیں سکے ہیں۔ یہ صورت حال ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں ایک ایسی وبا مسلط ہے جس نے ہمارے قبلہ اول کو بھی نمازیوں کے لیے بند کردیا ہے۔