اسرائیلی زندانوں میں قید 55 سالہ وفاء نعالوہ کو تقریبا ڈیڑھ ماہ تک پابند سلاسل رکھنے کے بعد گذشتہ ہفتے رہا کیا گیا۔ وفاء نعالوہ ایک شہید نوجوان اشرف نعالوہ کی ماں ہیں۔ وہ ڈیڑھ سال تک اسرائیل کے بدنام زمانہ ‘دامون’ جیل میں قید رہیں۔ حال ہی میں جب اسے رہا کیا گیا تو وفاء کا کہنا تھا کہ میری خوشی ادھوری ہے کیونکہ میرا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
وفاء نعالوہ نے رہائی کے بعد مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میری رہائی کی خوشی میں اہل خانہ اور عزیزو اقارب کی بڑی تعداد استقبال کے لیے آئے آئی مگر ان میں میرا لخت جگر اشرف نعالوہ نہیں تھا۔ مجھے ایسے لگا کہ ہر چہرے پراشرف نعالوہ ہی کا چہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے ساتھ بیتے ظلم کو بیان نہیں کرسکتی۔ میرے بیٹے کی شہادت میرے لیے بہت بڑا صدمہ ہے اور ساتھ ہی اعزاز بھی ہے۔ میں اس کیفیت کو کبھی بھول نہیں پائوں گی۔
منہدم شدہ مکان کی یادیں
غرب اردن کے شمالی شہر طولکرم کے نواحی علاقے شویکہ سے تعلق رکھنے والی وفاء کا کہنا ہے کہ میری گرفتاری اور بیٹے اشرف کی شہادت کے بعد صہیونی دشمن نے میرا گھر بھی مسمار کرڈالا۔ میرے بچوں نے اس کے بعد ایک نیامکان بنایا مگر میں اس منہدم کئے گئے مکان کے ملبے پر اس لیے گئی کیونکہ اس جگہ میرے شہید بیٹے کی یادیں وابستہ ہیں۔ یہ وہ جگہ اور مکان تھا جہاں میرے بیٹے اشرف نے آنکھ کھولی اور شہادت تک وہاں پر زندگی گذاری۔
رہائی کے دو روز بعد مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئےوفاء نے کہا کہ گھر کا ایک ایک کونہ میرے بیٹے کی یادوں کا مسکن ہے۔ ادھر وہ کھلیتا، کھانا کھاتا، یہاں اس نے ایک ایک دن گذارا اور پرورش پائی۔ مجھے اس کا سراپا آج تک اچھی طرح یاد ہے۔
خیال رہے کہ ڈیڑھ سال قبل اسرائیلی فوج نے اشرف نعالوہ کو طویل تعاقب کے بعد شہید کردیا تھا۔ قابض فوج نے اس کی ماں وفاء نعالوہ کو حراست میں لیا اور اس پر الزام عاید کہ اس نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت اور یہودی آباد کاروں کےقتل کے واقعات میں اپنے بیٹے اشرف کی مدد اور معاونت کی تھی۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے وفاء نعالوہ نے کہا کہ ہمارے لیے مادی نقصان کوئی اہمیت نہیں رکھتا، گرفتاریاں کوئی معنی نہیں رکھتیں، ہم سب اپنے وطن پر قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ اشرف کی جگہ میں شہید ہوجاتی۔ اشرف کی جدائی کو کسی چیز کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ وہ ہمارے لیے قدرت کا ایک تحفہ تھا مگر اس نے اپنا آپ وطن پر قربان کردیا۔ تمام فلسطینی نوجوان ایسا ہی جذبہ رکھتے ہیں۔
انتقامی کارروائی
وفاء نعالوہ کا کہنا ہےکہ میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب اسرائیل کا ایک انتقامی حربہ تھا۔ اس کارروائی کو ایک انتقامی حربے سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ گرفتاری کے بعد جس انداز میں مجھ سے تفتیش کی گئی اس نے واضح کردیا کہ صہیونی حکام صرف میرے خاندان اور میری ذات سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس مجھے ٹارچر کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ان کے پاس کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔
وفاء نعالوہ کی گرفتاری متعدد مراحل سے گذری۔ اس سے طویل تفتیش کی گئی۔ اس کے بعد اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کی مزاحمت کارروائیوں کی معاونہے۔ اسے وکیل کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔حال ہی میں اسے صرف گھر میں نظربندی کی شرط پر رہا کیا گیا۔ اسے 18 ماہ تک قید میں رکھنے کے ساتھ 12 ہزار ڈالر جرمانہ کیا گیا۔
وفاء نعالوہ کا کہنا ہے کہ وہ دامن جیل میں گذرے مشکلات سے بھرپور اسیری کے ایام کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس عقوبت خانے میں اسیران کو ادنیٰ درجے کے انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں۔