سنہ 1993ء میں پہلی بار اسلامی تحریک مزاحمت ‘حماس’ نے سعودی عرب میں اپنے ایک سرکردہ رہ نما ڈاکٹر محمد الخضری کو اپنا سفیر مقرر کیا۔ ڈاکٹر الخضری کو یہ ذمہ داری ان کی علمی، سفارتی اور تحریکی خدمات کی بدولت دی گئی تھی۔
وہاں سے 82 سالہ ڈاکٹر الخضری کے تحریکی سفارتی مشن کا آغاز ہوا۔ وہ سعودی عرب میں حماس کے پہلے اور اب تک کے آخری مندوب ہیں۔ مگر گذشتہ برس اپریل میں سعودی پولیس نے انہیں ان کے بیٹے 50 سالہ ڈاکٹر ھانی الخضری سمیت حراست میں لے کر جیل میں ڈال دیا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ سعودی پولیس نے مملکت میں قانونی اور آئینی طورپر مقیم درجنوں فلسطینیوں اور اردنی شہریوں کو حراست میں لیا۔ ان پر’دہشت گرد تمظیم’سے تعلق کے الزام میں ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
جدہ میں حماس کے دفتر کا قیام
فلسطین میں پہلی تحریک انتفاضہ سنہ 1987ء سے 1994ء کے دوران اور تحریک میں حماس کے نمایاں کردار کے بعد سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ میں جماعت کو اپنا نمائندہ دفتر قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔ حماس نے اپنی مرضی یا کسی خفیہ پروگرام کے تحت یہ دفتر قائم نہیں کیا تھا بلکہ سعودی عرب نےحماس کو فلسطینی قوم کی نمائندہ تنظیم تسلیم کرنے کے بعد اس وقت کے انٹیلی جنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے ڈاکٹر الخضری کو جدہ میں اپنا دفتر قائم کرنے اور انہیں سعودی عرب میں حماس کے سفیر کے طور پرکام کرنے کی اجازت فراہم کی تھی۔
ڈاکٹر محمد الخضری کے بھائی عبدالماجد نے ‘قدس پریس سے بات کرتے کہا کہ محمد الخضری پہلے کویت میں تھے۔ کویت پر عراق کےحملے کے بعد محمد الخضری اردن آگئے۔ کویت میں انہوں نے ملٹری اسپتال میں ایک سینیر ڈاکٹر کے طورپر خدمات انجام دینا شروع کی تھیں مگر سنہ 1962ء کو انہوں نے قاہرہ سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔
سنہ 1991ء میں کویت میں سے بڑی تعداد میں فلسطینی عراق سے نکل گئے۔ ان میں سے بیشتر اردن آگئے جن میں محمد الخضری بھی شامل تھے جو پہلے اردن آئے اور اس کے بعد سعودی عرب چلے گئے تھے۔
محمد الخضری نے سنہ 1993ء سے 2010ء تک مسلسل سعودی عرب میں حماس کے مندوب رہے۔
اس دوران سعودی عرب کے کئی انٹیلی جنس آئے۔ ان میں شہزادہ ترکی الفیصل، نواف بن عبدالعزیز، بندر بن سلطان اور مقرن بن عبدالعزیز میں سے ہرایک نے حماس کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور ڈاکٹر الخضری کو حماس کا سفیر تسلیم کیے رکھا۔ یہں تک سعودی عرب نے ڈاکٹر الخضری کی معاونت کے لیے ایک میجر جنرل محمد الغامدی ابو سعود کو ذمہ داری سونپی گئی تھی جو فلسطین کے حوالے سے کسی بھی مہم میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے۔
الشیخ احمد یاسین کا دورہ سعودی عرب
ڈاکٹر محمد الخضری نے حماس اورسعودی عرب کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانےمیں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1998ء میں حماس کے بانی الشیخ احمد یاسین نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو اس دورے میں الشیخ احمد یاسین نے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز اور دیگر اعلیٰ سعودی رہ نمائوں سے ملاقات کی۔
سعودی عرب کے سابق ولی عہد شہزادہ فہد بن عبدالعزیز اور شاہ عبداللہ کے ادوار میں الخضری نے آزادانہ طورپر سعودی عرب میں قیام کیا اور وہ فلسطینیوں کے سعودی عرب میں عطیات جمع کرتے رہے۔ ڈاکٹر الخضری اور سعودی عرب کے سینیر عہدیداروں کےدرمیان باقاعدہ مراسلت رہتی اور وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے۔
عبدالماجد نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی اور بھتیجے کی سعودی عرب میں ایک سال قبل گرفتاری کے بعد سعودی شاہی خاندان کی شخصیات، جملہ انسانی حقوق کے اداروں، فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس، عرب لیگ اور اقوام متحدہ میں بھی آواز اٹھا چکے ہیں مگر کسی طرف سے کوئی شنوائی نہیں ہوئی اور کسی قسم کا تعاون نہیں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان نے برطانیہ کی عدالتوں میں ڈاکٹر محمد الخضری کی رہائی کے لیے درخواستیں بھی دی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر الخضری نے بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ سعودی قیادت ان کے بھائی کے حوالے سے عالمی دبائو پر کیا جواب دے گی کیونکہ ڈاکٹر خضری عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بیمار بھی ہیں۔ انہوں نے محمد الخضری کی زندگی کو درپیش خطرات کی تمام تر ذمہ داری سعودی قیادت پر عاید کی اور کہا ہے ڈاکٹر الخضری اس وقت کینسر میں مبتلا ہیں اور وہ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ نہیں کرسکتے۔ سعودی عرب کی جیلوں میں انہیں کسی قسم کی طبی سہولت بھی مہیا نہیں کی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد الخضری کی زندگی پرایک نظر
حماس کے سعودی عرب میں مندوب ڈاکٹر محمد الخضری سنہ 1938ء کو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 1956ء میں قاہرہ یونیورسٹی طب کے مضمون میں داخلہ لیا۔ سنہ 1962ء کو فراغت کے بعد وہ غزہ واپس آگئے اور غزہ کے الشفاء اسپتال میں خدمات کا آغاز کیا۔ نو ماہ تک غزہ میں خدمات کے بعد وہ کویت چلے گئے۔
کویت پہنچنے کے فوری بعد انہوں نے ایک نجی میڈیکل کمپنی میں ملازمت شروع کی۔ اسی دوران وہ کویتی فوج میں بہ طور ڈاکٹر بھرتی ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے برطانیہ کی اڈنبرہ یونیورسٹی سے بھی طب کا ایک کورس کیا۔ انہیں نے ناک ، کان اور گلے کے امراض اور ان کے علاج میں تخصص کیا اور کویت ہی میں کام جاری رکھا۔
ڈاکٹر محمد الخضری اور ان کے بھائی نے سنہ 1967ء کی جنگ میں کویتی فوج کی طرف سے خدمات انجام دیں۔ کویت نے فوج کا ایک دستہ مصری فوج کی نہر سویز میں مدد کے لیے بھیجا جس میں ڈاکٹر الخضری بھی شامل تھے۔ سنہ 1973ء کی جنگ میں بھی کویت نے انہیں شامی فوج کی مدد کے لیے بھیجا۔
اپریل 2019ء کو سعودی پولیس نے ڈاکٹر محمد الخضری اور ان کے بیٹے ھانی الخضری کو حراست میں لیا۔ انہیں جولائی 2019ء تک چار ماہ تک جدہ کی ‘الذھبان’ جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا۔ اس کے بعد ان کے اقارب کو مہینے میں ایک بار ملاقات کی اجازت دی اور مارچ 2020ء کو ان کے خلاف سعودی عرب کی ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا آغاز کیا گیا۔ ان کے کیس کی سماعت 12 رمضان المبارک تک ملتوی کردی تھی۔
ڈاکٹر محمد الخضری اس وقت الریاض کی بدنام زمانہ ‘حائر’ جیل میں قید ہیں۔ عمر رسیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کینسر کے مریض بھی ہیں مگر انہیں کسی قسم کی طبی سہولت اور معاونت نہیں کی گئی۔