کھیتی باڑی کے جدید ترین وسائل کے باوجود فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی محاصرے کے باعث مقامی فلسطینی شہری کھیتی باڑی کے روایتی اور پرانے طریقے استعمال کرنے پرمجبور ہیں۔ان میں گھوڑوں سے کھیتی باڑی اور زمین میں ہل چلانے کے طریقے بھی شامل ہیں۔
غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ ابو مرزوق اپنے گھوڑے کےساتھ لوگوں کے کھیتوں میں ہل چلاتے اور اس طرح وہ اپنے لیے رزق حلال اور طیب کا اہتمام کرتے ہیں۔ ابو مرزوق کو اپنے گاہکوں کی طرف سے فون کا انتظار رہتا ہے۔
چھالیس سالہ حمادہ الشاعر 20 سال سے اپنے گھوڑے کے ساتھ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اس کے سدھائے گھوڑےاس کی بات اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
کئی بار ایسا ہوا کہ ابو مرزوق اپنے بیوی بچوں کے درمیان بیٹھے چائے پی رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کسی گاہک کا فون آجاتا ہے۔ وہ اپنے گھوڑے کے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
ابو مرزوق نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ پیشہ 20 سال قبل شروع کیا۔ میں لوگوں کو کھیتی باڑی کرتے اور گھوڑوں بیل کو ہل جوتے دیکھتا۔
اس نے کہا کہ ہم فطرتا کاشت کار اور کسان ہیں۔ میں نے کھیتی باڑی گائوں کے بزرگوں سے سیکھی۔ یہاں تک کہ میں نے اس میں مہارت حاصل کرلی۔
اس نے دستی ہل کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ ہل کی تیاری ایک فن ہے اور اس پر مہارت حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے۔ میں ہل کی تیاری کا کام اپنے گھوڑے کے سامنے کرتا ہوں اور وہ مجھ پر بہت زیادہ اعتماد کرتا ہے۔ میری باتیں اور اشارے سمجھتا ہے۔
الشاعر ایک کھیت میں آلو کاشت کرتا ہے۔ آلو کی کاشت سے قبل زمین میں باربار ہل چلایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہل چلانا اور کاشت کاری بہت تھکا دینے والا کام ہے۔ کام کے دوران میں اور میرا گھوڑا بار بار آرام کے لیے وقفہ کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی محنت کش نے بتایا کہ ایک دونم یعنی ایک ہزار مربع فٹ کی جگہ پرہل چلانے اور کاشت کاری کے عوض 60 شیکل کما لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ موسم سرما میں کاشت کاری کے لیے لوگ ان کے پاس آتے اور اپنے کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے گھوڑے کو لےجاتے ہیں۔
الشاعر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی شرمندگی کا کام نہیں۔ میں نے کم عمری میں یہ پیشہ اختیار کیا اور اب میں عمر کے درمیانے حصے میں ہوں اور یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔