یکشنبه 17/نوامبر/2024

برج البراجنہ جہاں فلسطینیوں کی موت زندگی سے زیادہ مشکل ہوچکی

منگل 10-مارچ-2020

لبنان میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم کردہ کیمپوں میں بسنے والے فلسطینیوں کی زندگی اور موت دونوں ہی مشکل ہو چکی ہیں۔ ان پناہ گزین کیمپوں میں دارالحکومت بیروت میں‌قائم ایک کیمپ کو ‘برج البراجنہ’کا نام دیا جاتا ہے۔ کہنے کوتویہ ایک مہاجر کیمپ ہے مگر اس میں آباد فلسطینی پناہ گزینوں کو بنیادی انسانی ضروریات تک دستیاب نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے باسیوں کی جس طرح زندگی مشکل ہوچکی ہے ۔ اسی طرح ان کی بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ مرنے کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کو تدفین کے لیے دو گز زمین بھی دستیاب نہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق برج البراجنہ پناہ گزین کیمپ میں آباد فلسطینیوں کو نہ تو صحت صفائی کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی کیمپ میں بجلی ہے۔ پانی ہے اور نہ ہی خوراک۔ اس طرح فلسطینی مہاجرین انتہائی  مشکل زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ اگر کوئی فوت ہوجاتا ہے تو اس کی تدفین کے لیے قبرستان میں زمین بھی دستیاب نہیں۔

اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں‌ کی بہبود کی ذمہ دار ایجنسی "اونروا’ کے  مطابق برج البراجنہ کیمپ میں 16 ہزار فلسطینی آباد ہیں۔

فلسطینی پناہ گزین گزٹ کی رپورٹ کے مطابق حالیہ عرصے کے دوران برج البراجنہ پناہ گزین کیمپ میں فلسطینی پناہ گزیںوں کی تعداد میں اضافے کے بعد ان پر عرصہ حیات مزید   تنگ ہوگیا ہے۔ پورے پناہ گزین کیمپ کے لیے قبرستان کی جگہ صرف ایک سومربع میٹر  رکھی گئی ہے۔ ماضی میں یہ جگہ ایک فٹ بال کا گرائونڈ تھی مگر سنہ 1948ء کے بعد اسے تحریک فتح کے نوجوانوں نے لبنان میں اپنی سرگرمیوں کے لیے بھی استعمال کیا۔
سنہ 1982ء میں اسرائیل کی لبنان پر جارحیت کے دوران وہاں‌ پر موجود فلسطینی پناہ گزینوں کو بھی حملوں‌کا نشانہ بنایا گیا۔ سنہ 1985 اور 1988ء کی جنگ میں‌بھی فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنی میتیں اسی جگہ دفن کرنے پرمجبور کیا گیا۔
اس کے بعد اس کیمپ کے مکینوں کو کئی بار کے مطالبات کے بعد ایک سو مربع میٹر کی جگہ الاٹ کی گئی جسے قبرستان کا درجہ دیا گیا۔
فلسطینی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ وہ قبروں پر قبریں بنانے پرمجبور ہیں۔ قبرستان میں ایک اینچ جگہ بھی نہیں بچی۔ پناہ گزینوں‌کا کہنا ہےکہ وہ بار بار بیروت انتظامیہ سے قبرستان کے مسئلے پربات کرچکے ہیں مگر ان کے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔

برج البراجنہ کیمپ کے مکینوں‌کا کہنا ہے کہ آنے والے وقت میں ان کے لیے اور بھی مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اس کیمپ میں رہنے والے ایک فلسطینی پناہ گزین محمد عبدالمعطی نے بتایاکہ وہ اپنی ماں کی میت کو اپنے شہید بھائی کی قبر میں دفن کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ صرف میرا واقعہ نہیں بلکہ میری طرح کے کئی دوسرے ایسے فلسطینی پناہ گزین ہیں جو اپنے فوت ہونے والے رشتہ داریوں کو پہلے سے موجود قبروں کو توڑ کر ان میں دفن کرنے پر مجبور ہیں۔

پناہ گزین کیمپ میں قبرستان کمیٹی کے رکن ابو اشرف نے کہاکہ قبرستان کے مسئلے کابنیادی سبب ماضی میں وہاںً‌پر پر اندھا دھند قبریں بنانا ہے۔ بے ڈھنگی اور غیر مرتب قبروں کی وجہ سےقبرستان میں مزید قبروں کی گنجائش ختم ہوچکی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ آنے والے دونوں میں برج البراجنہ پناہ گزین کیمپ کے مکینوں‌ کو ایک نئے بحران کا سامنا ہے۔
ایک اور فلسطینی پناہ گزین ولید شریفہ  نے بتایا کہ اگر ہم برج البراجنہ کیمپ کے قبرستان سے باہر جانے ہیں تو اس کے نتیجے میں ہمیں  ایک قبر کے لیے چارہزار لیرہ کی رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ امریکی کرنسی میں یہ رقوم 1500 ڈالر سے زیادہ ہے۔ ہرفلسطینی خاندان کسی فوت ہونے والے رشتہ دار کی تدفین کے لئے اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ایک اور فلسطینی پناہ گزین ثائر الدبدوب نے بتایا کہ برج البراجنہ پناہ گزین کیمپ میں فلسطینیوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار ہوچکی ہے۔ لبنانی حکومت کی طرف سے وضع کردہ قوانین نے فلسطینی پناہ گزینوں کی زندگی اور موت دونوں مشکل بنا دی ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی