شنبه 03/می/2025

فلسطین میں ‘کرونا ایمرجنسی’ بحرانوں کے حل میں ناکامی کا اعتراف

اتوار 8-مارچ-2020

حال ہی میں فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور رام اللہ اتھارٹی کے ماتحت وزیراعظم محمد اشتیہ نے کرونا وائرس سے نمٹںے کے لیے فلسطینی اراضی میں 30 دن کے لیے ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے اس اعلان پرعوامی، سماجی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اشتیہ اور صدر عباس کی طرف سے ہنگامی حالت کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ رام اللہ اتھارٹی میں قوم کو درپیش اجتماعی بحرانوں کے حل کی ہمت اور حوصلہ نہیں رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی بحران کو دیکھ کر حواس کھو بیٹھی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کے ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد فلسطینی علاقوں میں ایک ماہ  کے لیے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں۔ غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم میں کرونا وائرس کے متعدد کیسز سامنے آنے کے بعد فلسطینی اتھارٹی کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔

فلسطینی تجزیہ نگار علی بنات نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہنگامی حالت کی مدت کے بعد فلسطینی خاتون وزیرسیاحت کو غیرملکی وفود کو فلسطینی علاقوں میں داخلے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ عوام یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد کیا ہوگا۔اس کی مدت کے خاتمے کے بعد کیا ہوگا؟ اسکول اور جامعات کی بندش اوردوبارہ کھلنے کےبعد کیا ہوگا۔ کیاہم طلباء کا وقت اسی طرح برباد کرتےرہیں گے۔ کیا ہم یکے بعد دیگرے موجودہ اقتصادی اور سماجی بحرانوں کے حل کے بھی ایسا ڈھونگ رچائیں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ فلسطینی اتھارٹی کی تعلیمی، صحٹ اور دیگر پالیسیاں مثبت سمت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔

عوامی رد عمل

فلسطینی سماجی کارکن ایمان عبدالرحمان نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوامی حلقوں میں رام اللہ اتھارٹی کی طرف سے ہنگامی حالت کے نفاذ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ کم زور اور کم آمدن والے افراد کے لیے ایک ماہ تک بے روزگار رہنا مشکل ہے۔ خاص طورپر ایسے افراد جو تعلیمی، سیاحتی یا دیگر شعبوں میں یومیہ کی بنیاد پرکام کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان سے قبل فلسطینی اتھارٹی کو شہریوں کی معیشت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔ اگر نظام زندگی ہی ٹھپ ہوجائے تو فلسطینی اتھارٹی کے پاس اس کےبعد کیا پروگرام ہوگا۔

ایک سوال کے جواب میں ایمان نے استفسار کیاکہ کیا فلسطینی اتھارٹی نے کرائسز سیل قائم کیا ہے۔ کیا فلسطینی اتھارٹی کے پاس کوئی متبادل پروگرام ہے۔ تمام معاشرے امیر ہونے سے قبل غربت کی مشکلات سے گذرتے ہیں مگر اس کے لیے حکومت میں ایسی صلاحیت ہونی چاہیے۔ شہریوں کے پاس بنیادی ضروریات پوری کرنے اور علاج معالجے ، دوائی خریدنے کے لیے جیپ میں پیسے ہونے چاہئیں۔

فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک فری گروپ کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالت کے نفاذ کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو شہری آزادیوں کا خیال کرنا چاہیے۔

انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد فلسطینی اتھارٹی نےتحریک فتح کے سابق رکن پارلیمنٹ حسام خضر کو حراست میں لے لیا۔ ان کی گرفتاری اس لیے عمل میں لائی گئی کیونکہ انہوں نے فلسطینی ڈاکٹروں کے خلاف رام اللہ اتھارٹی کے اہانت آمیز طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مختصر لنک:

کاپی