فلسطینی قوم صہیونی ریاست کے مظالم ریاستی جبر کے نتیجے میں اس وقت دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں نہ صرف بکھری ہوئی ہے بلکہ جہاں جہاں فلسطینی پناہ گزین کی حیثیت سے رہ وہے ہیں ان کی مشکلات اور مصائب میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ فلسطین میں محاصرے اور اسرائیلی ریاستی دہشت گرد سے لے کر لبنان میں مصیبتوں میں گھرے، شام میں تباہ کن جنگ اور خانہ جنگی کا سامنا کرنے اور عراق میں بنیادی حقوق سے محرومی جیسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
سنہ 2003ء میں جب امریکا نے عراق پر یلغار کی تو اس وقت عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 40 ہزار مگر اب یہ تعداد کم ہو کر صرف چار ہزار رہ گئی ہے۔ ان چار ہزار فلسطینیوں پربھی عراق کی سرزمین تنگ کردی گئی ہے۔حال ہی میں بغداد میں پناہ گزین کمیشن نے فلسطینی پناہ گزینوں کی رہائش کی مد میں دی جانے والی امداد بند کرنے کا اعلان کیا جس کےبعد فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
مصیبت پرمصیبت
عراق میں مقیم فلسطینی پناہ گزین گذشتہ 17 سال سے مسلسل خوفناک جنگ کا سامنا کررہے ہیں۔ ایک مقامی صحافی اور دانشور رافد الجبوری کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو ایک نہیں کئی طرح کے حملوں کا سامنا ہے۔ انہیں رہائش جیسی بنیادی سہولت سےمحروم رکھا جانا بھی ایک بڑا حملہ ہے۔ عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کا انحصار صرف پناہ گزین کمیشن کی طرف سے دیئے جانے والے رہائش الائوس پرتھا۔ جب سے رہائش الائونس بند کیا گیا ہے اس کےبعد فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
پناہ گزین کمیشن کی طرف سے عراق میں مقیم 300 فلسطینی پناہ گزین خاندانوں کے رہائشی الائونسز ختم کیے گئے ہیں۔ بدقسمتی سےیہ سب انتہائی نادار خاندان ہیں جن میں بیوہ خواتین اوران کے بچے شامل ہیں۔
الجبوری کا مزید کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ اسے شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات سے متعلق خبروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ ایسے لگتا ہے کہ عراقی حکومت اور عالمی ادارے سب فلسطینی پناہ گزینوں کو محروم رکھنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔
الجبوری کامزید کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں اکثریت ماضی میں عراق کے سیاسی معاملات سے دور رہی ہے۔ جس طرح فلسطینی گروپ دوسرے عرب ممالک میں سرگرم رہے ہیں، عراق میں نہیں رہے۔
انہوں نے بتایا کہ عراق میں بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو قتل، تشدد اور نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا۔ عراق میں موجود فلسطینیوں نے شام اور اردن نقل مکانی کی کوشش کی شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث وہ وہاں نہیں جاسکے جب کہ اردن کی حکومت نے بھی فلسطینی پناہ گزینوں پراپنے دروازے بند کردیے۔ یہاں تک کہ بہت سے فلسطینی پناہ گزینوں کو لاطینی امریکا اور آئیس لینڈ جیسے ممالک کی طرف جانا پڑا۔
بچ جانے والوں کے گرد گھیرا تنگ
رافد الجبوری کا کہنا ہے کہ عراق پرامریکی قبضے کے وقت فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد چالیس ہزار تھی۔ عراق میں ہونے والے تشدد اور جنگ کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینی نقل مکانی پرمجبور ہوئے۔ نئی عراقی حکومتوں نے ملک میں آباد فلسطینی پناہ گزینوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ان کی مشکلات میں اضافہ کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی۔
انہوں نے بتایا کہ فلسطینیوں کی مشکلات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہےکہ عراقی حکومت کی طرف سے انہیں رعایتی بنیادوں پر غذائی سامنا اور بنیادی ضروریات کی چیزیں خریدنے کا حق نہیں دیا گیا۔ نہ ہی انہیں انشورینس کی اجازت ہے اور ان سے مفت تعلیم کا حق بھی چھین لیا گیا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ملازتیں بھی نہیں دی جاتیں۔ دو سال قبل عراقی پارلیمنٹ نے تارکین وطن اور شہریت کے حوالے سے ایک نیا قانون منظور کیا جس میں عراق میں مقیم فلسطینیوں کو غیرقانونی تارکین وطن قرار دیا گیا حالانکہ سال 2001ء میں عراق میں فلسطینی پناہ گزینوں کو عراقی باشندوں کے مساوی حقوق حاصل تھے۔